پیر زادہ شریف الحسن عثمانی، سکھر
قارئین ہماری علمی قابلیت و استعداد کے بارے میں چاہے جو رائے قائم کریں ،مگر ہم طوطے کی املا ’’ط‘‘ ہی سے لکھیں گے کہ اردوکی پہلی کتاب میں ہمیں ’’ ط سے طوطا‘‘ ہی پڑھایا گیا تھا ۔ اب کہتے ہیں، اس کی درست املا ’’توتا ‘‘ہے اور ’’ توتے‘‘کو ’’طوطا‘‘اس لیے بنادیا گیا تھا، کیوںکہ اُس دَور میں بچّوں کا قاعدہ مرتّب کرتے ہوئے ’’ط‘‘ سے کوئی ایسا آسان لفظ نہیں مل رہا تھا ،جس کے معنی سے بچّے آشنا ہوتے ۔
بہر حال، املا چاہے جو بھی ہو، طوطوں کے عادات و اطوار ، شکل و شباہت اور ناز و انداز میں اس سے کوئی فرق نہیں آتا، اس لیے اس بات کو یہیں ختم کرتے ہیں ۔ ویسے حضرتِ انسان نے جوشِ رقابت کے ہاتھوں مجبور ہو کر ہمیشہ طوطوں کے بارے میں منفی اندازِ فکر اپنایا ہے اور طوطوں کی ہر ہر ادا کو طنز و تضحیک کا نشانہ بنایا ۔ اس پُرخاش کی اصل وجہ شاید یہ ہے کہ انسان کے بعد طوطا وہ واحد جان دار ہے کہ جس کا ذکر درس و تدریس کے حوالے سے کیا جا سکتا ہے، باقیوں کو یا تو سکھایا جاتا ہے یا سدھایا جاتا ہے ، مگرطوطا منفرد ہے کہ اسے پڑھایا جاتا ہے ۔
یہ الگ بات کہ انسانوں نے انہیں پڑھانے کے سلسلے میں کبھی سنجیدگی اور بالغ النّظری سے کام نہیں لیا اوران کا نصاب عمداً و قصداً ایک سطر تک محدود رکھا ہے ،جس کے نتیجے میں ہمارے طوطے مدتِ مدید سے ایک ہی سبق دُہراتے چلے آ رہے ہیں کہ ’’ مٹّھو بیٹا! چوری کھائے گا؟ ‘‘ ایک ہی سبق رٹوانے میں کیا حکمت پوشیدہ ہے، اسے سمجھنے سے ہم ایک مدت تک قاصر رہے ، تا وقتیکہ ہم نے اپنی صاحب زادی کوجماعت نہم میں وہی سبق رٹتے نہیں سن لیا، جو ہم نے ٹھیک اکتیس برس قبل اسی جماعت میں طوطے کی طرح رٹا تھا۔
تب ہم پر یہ بھید کھلا کہ سفینۂ تعلیم کے ناخداؤں کا یہ چلن محض طوطوں کے لیے مخصوص نہیں، خود انسانوں کے ساتھ بھی رویّہ مساویانہ ہے ۔ عدل و انصاف کے اس زندہ و جاوید ثبوت کو دیکھ کر ہم پریہ پوری طرح واضح ہوگیا کہ حصولِ علم کے لیے پشت دَر پشت یا نسل دَر نسل ایک ہی سبق کا رٹنا از بس ضروری ہے، دنیا کا کیا ہے تبدیلی اور ترقّی کے پیچھے بھاگتی رہے ۔ہم بہرحال، ایک باوقار قوم ہیں ۔سو ،ہم اور ہمارے طوطے اس قسم کی حرکتوں میں حصّہ نہیں لے سکتے، آخر مستقل مزاجی بھی کسی چڑیا کا نام ہے۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی طوطوں کے بارے میں انسان کے منفی اندازِ فکر کی ،تو انسان کو خاص طور پر اس معصوم و بے ضرر جان دار سے بے وفائی کا گِلہ ہے۔ کہتے ہیں کسی طوطے کو برسوں پیار، محبت سے پالو، دن رات اسے اپنے ہاتھ سے کھلاؤ، ہر طرح سے خیال رکھو، مگرغلطی سے گھڑی بھر کو پنجرے کا دروازہ کھلا رہ جائے تو یہ پُھر سے اڑ جاتا ہے ۔ بس اسی کو اس کی بے وفائی سمجھا جاتا ہے ،لیکن ہمارا اختلاف یہ ہے کہ جب یہی ’’جرأت‘‘انسان دکھاتا ہے تو اسے حرّیت پسندی کا نام دیا جاتا ہے، پھرطوطوں کے سلسلے میں معیار بدل کر ہم اسے ’’طوطا چشمی‘‘کیوں کہتے ہیں؟
ہمیں یقین ہے کہ اگر خود طوطوں کو بھی اس پر احتجاج کا حق حاصل ہوتا ،تو یقیناً ان میں سےکوئی نہ کوئی طوطا ، اشرف المخلوقات کو یہ باور کروانے کی کوشش ضرور کرتا کہ ’’جناب! انسانی تاریخ طوطوں کی نہیں، حضرتِ انسان کی اپنی ہی بے وفائیوں اور غدّاریوں کی داستانوں سے بھری پڑی ہے اور چوں کہ طوطوں کی اپنے ہم جنسوں سے بےوفائی کا ایک بھی حوالہ تاریخ میں رقم نہیں ، تو یہ محض زیادتی ہوگی کہ طوطوں کوصرف ’’ غلامی پسند‘‘ نہ ہونے کی بنا پر ہدفِ ملامت بنایا جائے۔انہوں نے آج تک اس قسم کی کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں کی، کیوں کہ ’’رہنمانان ملّتِ طوطیہ‘‘ شاید جانتے ہیں کہ نقّار خانے میں طوطی کی صدا کوئی نہیں سنتا، انسانوں کی دنیا میں صرف انسانوں ہی کا طوطی بولتا ہے۔‘‘
ویسے ہمارا مشورہ ہے کہ اگر خواہش صرف یہی ہے کہ پنجرے کا دروازہ کھلا رہ جانے پربھی طوطا ہمیں داغِ مفارقت نہ دے ، تو کسی ترکیب سے تمام طوطوں کو اکٹھا کرکے ،سو برس کے لیے ’’ تاجِ برطانیہ‘‘ کی غلامی میں دے دیا جائےکہ ہمیں یقین ہے کہ اس کے بعد طوطوں کی جو نسلیں ہمارے ہاتھ لگیں گی ،وہ لمحہ بھر تو کیا ’’پچھتر برس‘‘ دروازہ کھلا رہنے پر بھی پنجرے سے باہر پَر نہیں ماریں گی۔ اسی طرح انسانوں میں اگر کسی کی ناک ذرا مُڑی ہوئی ہو تولوگ بلا تکلّف اسے طوطا کہہ کر چھیڑتے ہیں، جب کہ طوطے ہرگز اپنی مڑی چونچ کوعیب نہیں گردانتے ۔
بحث مباحثے مہذّب معاشروں میں سوچ کے دَر وا کرتےہیں، مگر عدم برداشت کے گرویدہ،ہمارے معاشرے میںیہ فریقین کے سر کھولتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سمجھ دار بیگمات جب خاوند کی زبان سے یہ جملہ سنتی ہیں کہ ’’طوطے کی طرح ٹَیں ٹَیں بند کرو، مِری بات سنو‘‘ تو حق بجانب ہوتے ہوئے بھی دَم سادھ کر ہمہ تن گوش ہو جاتی ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں طوطا ظرف میں ابنِ آدم پہ سبقت لے جاتا دکھائی دیتا ہے، کیوں کہ طوطی کی ٹَیں ٹَیں پر طوطے کا ردّ ِ عمل ہرگزاس طرح کا نہیں ہوتا۔
ویسے درخت لگانے کے سلسلے میں ہمارے ، حکم ران خاصےسنجیدہ ہیں اور کروڑوں، اربوں درختوں کے لاکھوں منصوبے ان کی میزپر ’’پڑے‘‘ ہیں، جوطوطے انہیں دیکھ لیں ،تو ان کا دل باغ باغ ہوجائے۔ ہمارے لیے بھی یہ صورتِ حال اطمینان بخش ہے۔ بقول شخصے ’’حکومت درخت لگا کر بالکل ٹھیک کر رہی ہے، جو حالات چل رہے ہیں، عوام کو آگے پتّے ہی کھانے ہیں۔ ‘‘