انٹرویو:رؤف ظفر، لاہور
عکّاسی:عرفان نجمی
نیلم احمد بشیر کی پہچان صرف یہی نہیں کہ وہ معروف ادیب، صحافی اور دانش وَر احمد بشیر کی سب سے بڑی صاحب زادی ہیں، بلکہ وہ اُردو اور پنجابی ادب کو 6افسانوی مجموعوں، ایک ضخیم ناول، دو سفرناموں اور خاکوں پر مشتمل ایک کتاب کی صُورت 10کتب بھی دے چُکی ہیں۔ مُنو بھائی(مرحوم) نے اُن کے بارے میں کہا تھا’’نیلم کی باتیں چونکا دینے والی، پریشان کر دینے والی اور ہاتھوں میں پسینہ لے آنے والی ہیں، مگر ایک اداس کر دینے والی سوچ بھی ساتھ ساتھ حاوی رہتی ہے‘‘۔ گزشتہ دنوں اُن کے ساتھ ایک تفصیلی نشست ہوئی، جس میں اُنھوں نے اپنے والد، خاندان اور زندگی کے نشیب وفراز کے حوالے سے کُھل کر اظہارِ خیال کیا۔
س :اپنی ابتدائی زندگی، تعلیم و تربیت اور خاندان کے بارے میں کچھ بتائیے؟ ایک معروف باپ کی بیٹی ہونا کیسا لگا؟
ج: مَیں 1950ء میں ملتان میں پیدا ہوئی، جب میری والدہ اپنے آبائی گھر گئی ہوئی تھیں۔ امّی اور ابّا آپس میں فرسٹ کزن تھے۔ والدہ مجھے لے کر ایک، دو ماہ بعد واپس لاہور آ گئیں، لیکن پھر 1965ء میں ہم کراچی چلے گئے، جہاں والد صاحب ایک سرکاری محکمے میں ملازم تھے۔میری ابتدائی تعلیم، آٹھویں تک کراچی میں مکمل ہوئی، پھر ہمیں واپس لاہور آنا پڑا، کیوں کہ لاہور میں میرے چچا کا صرف تیس برس کی عُمر میں انتقال ہو گیا تھا۔ اختر عکسی بہت اچھے مزاح نگار تھے، لیکن زندگی نے اُنہیں زیادہ مہلت نہ دی۔ میرے دادا وزیر آباد کے ایک اسکول کے ہیڈماسٹر تھے۔
میرے ابّا میں علم و دانش اور لکھنے لکھانے کا جین شاید اُن ہی سے منتقل ہوا تھا۔ بہرحال، والد کو اپنے بھائی کے انتقال پر سخت رنج ہوا اور ہم لوگ کراچی سے بوریا بستر لپیٹ کر مستقل طور پر لاہور آگئے۔ میرے شعور نے کراچی میں آنکھ کھولی۔ تقریباً تمام ہی بڑے ادیب، گلوکار اور شاعر ہمارے گھر آتے تھے۔ اُن میں ابنِ انشاء بھی تھے۔ مَیں ان سب ادیبوں کی لاڈلی اور پیاری تھی۔ یوں سمجھیے، میرا بچپن گڑیوں کی بجائے ان ادیبوں سے کھیلتے گزرا اور میرے ذہن پر وہ محفلیں آج بھی نقش ہیں۔ کلاسیکی موسیقی کے تمام بڑے استاد ہمارے گھر محفلیں سجاتے۔
والد صاحب کو موسیقی کا نہ صرف شوق تھا، بلکہ اس کے اسرار و رموز سے بھی واقف تھے۔ یہی وہ زمانہ(1969ء)تھا، جب اُنہوں نے ’’نیلا پربت‘‘ کے نام سے ایک آرٹ فلم بنانے کی جرأت کی، لیکن دوسری مروّجہ فلمز سے ہٹ کر ایک مختلف انداز میں بنائی گی یہ فلم ناظرین کے مخصوص مزاج پر پوری نہ اُتر سکی۔ اچھی اور سبق آموز تفریح دینا ابّا جان کا ایک کریز تھا، اِسی لیے وہ ناکامی کا اتنا بڑا صدمہ بھی برداشت کر گئے۔
س: آپ سب سے بڑی بیٹی ہیں، بعدازاں تین بہنیں اور پیدا ہوئیں، یہ بتائیے کہ متواتر بیٹیاں پیدا ہونے پر والد کا کیا ردّ ِعمل ہوتا تھا؟
ج: مَیں باشعور تھی، جب یکے بعد دیگرے تین بہنیں اور ایک بھائی پریوں، چاند کی صُورت ہمارے گھر آنگن میں اُترے۔ میری تینوں بہنوں کی پیدائش پر والد صاحب نے خوشی خوشی اعلان کیا۔ سب کو بتایا کہ ہمارے گھر ایک اور چاند سی بیٹی پیدا ہوئی ہے۔ وہ اپنی بیٹیوں کے بارے میں کبھی کوئی منفی بات سُننے کو تیار نہ ہوتے تھے۔اِس لیے ہم سب بہنیں بہت اعتماد اور چاہت کے ماحول میں پروان چڑھیں۔ جہاں تک ان بہنوں کے درمیان بچپن گزارنے کا تعلق ہے، اب تو وہ سب کچھ ایک سہانا خواب ہی لگتا ہے۔ ہم سب بہنیں اور ایک بھائی، ہمایوں سب اپنی اپنی جگہ خوش ہیں۔
مَیں چوں کہ گھر میں سب سے بڑی تھی، اس لیے 13سال کی عُمر ہی میں اپنی چھوٹی بہنوں کو صبح نہلانے، ناشتا کروانے اور اسکول چھوڑنے کی ذمّے داری میری تھی۔ بہنیں میری اتنی گرویدہ تھیں کہ آج بھی اُنہیں ہلکا سا کانٹا چُبھ جائے، تو سب مجھ ہی سے رجوع کرتی ہیں۔ مَیں گھر میں’’ مَدر ٹریسا‘‘ کے نام سے جانی جاتی تھی، لیکن بعدازاں جب میری دوسری بہن، سنبل پیدا ہوئی، تو ہم دونوں کو’’ بڑی باجیاں‘‘ ہونے کی وجہ سے گھر میں اہم مقام حاصل ہوگیا۔ گھر کے کچن کے ایک کونے میں تین ٹانگوں والی ایک میز ہوا کرتی تھی، اسکول، کالج سے آنے اور شام کی چائے کے بعد کچن میں ایک شان دار محفلِ موسیقی کا انعقاد ہوتا۔
سنبل میز کو اپنی نازک انگلیوں سے بجاتی اور ماں سمیت سب لڑکیاں، جن کے گَلوں میں قمریوں کی کُوکُو جیسی خُوب صُورت آواز تھی، گانے لگتیں۔ چوں کہ سبھی سُریلی تھیں، لہٰذا خُوب محفل جمتی۔ یہاں یہ بھی بتا دوں کہ ہمارے ابّا کو موسیقی کا شوق نہیں، بلکہ جنون تھا۔ وہ کلاسیکی موسیقی اور راگ داری کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔ ہماری امّی، محمودہ خانم کی آواز سُنی، تو اُنہیں سُریلی لگی۔ اُن کی خواہش تھی کہ وہ گانا سیکھیں اور اس میں کمال حاصل کریں۔ سو، امّی نے بھی شوہر کی خواہش پر سرِتسلیم خم کر دیا اور ایک استاد سے موسیقی سیکھنے لگیں۔
س:آپ نے اپنے ابّا کو کیسا پایا؟ دنیا کے لیے تو وہ ایک بڑے صحافی، دانش وَر اور ادیب تھے؟
ج:ہمارے والدین نے ایک شان دار ازدواجی زندگی گزاری۔ والد کا 2004ء میں انتقال ہوا، جب کہ والدہ ماشااللہ 84سال کی ہیں، لیکن اِن دنوں صاحبِ فراش ہیں۔ ہمارے والدین، خاص طور پر والد، بچّوں کو مالا کے منکے تصوّر کرتے، جب کہ مالا وہ خود تھے۔ بیوی اور بچّوں سے محبّت میرے والد کا ایمان تھا، جس پر وہ زندگی کی آخری سانس تک کاربند رہے۔
س : کبھی بہنوں میں لڑائی بھی ہوئی؟
ج: ہم اپنی شرارتوں کی وجہ سے اکثر ایک دوسرے سے روٹھ جاتیں۔ بچپن میں، مَیں اور سنبل ایک ہی چارپائی پر سوتیں۔ سنبل کو زیادہ نیند آتی تھی اور مجھے اُس کے بغیر مزا نہیں آتا۔ مجھے شرارت سوجھتی، تو اچانک بے خبر سوئی سنبل کو ہڑبڑا کر اُٹھا دیتی کہ’’اٹھو زلزلہ آیا ہے‘‘ وہ جب سَر پر پائوں رکھ کر بھاگنے لگتی، تو مَیں قہقہے لگاتی۔کبھی شام کو اُسے ہِلا ہِلا کر جگاتی کہ’’ اٹھو صبح ہو گئی، اسکول جانے کا وقت ہوگیا ہے۔‘‘ وہ خواب آلود آنکھوں سے باتھ روم میں جاکر جب سلوموشن میں ٹوتھ پیسٹ کرتی اور باہر آکر کہتی’’ناشتا دو‘‘ تو مجھ پر ہنسی کا دَورہ پڑ جاتا۔ بس ایسی ہی معصوم شرارتوں میں ہمارا سارا بچپن بیت گیا۔
س:بشریٰ انصاری نے خُوب شہرت سمیٹی ہے، وہ بچپن میں کیسی تھیں؟
ج:قطار اندر قطار اس تیسری بیٹی کے آنے کے بعد ہماری ماں کے دل میں ایک قدرتی سی حسرت پیدا ہو گئی کہ اے کاش! قدرت اُنہیں بھی دوسری مائوں کی طرح بیٹے کی محبّت کا مزا چکھنے کا موقع دے۔ ہمارے ابّا حسبِ سابق مطمئن نظر آتے تھے، مگر امّی چپ چاپ ایک آدھ آنسو کبھی کبھار ضرور بہا لیا کرتیں۔
اُنہوں نے شوہر کے قریبی دوست، ابنِ انشاء سے اپنی اس آرزو کا ذکر کیا، تو اُنہوں نے مشورہ دیا کہ’’ بچّی کا نام بشریٰ رکھیں، کیوں کہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اولادِ نرینہ سے ضرور نوازتے ہیں۔‘‘ میاں بیوی توہم پرست نہیں تھے، لیکن اُنہوں نے اُن کی یہ بات مان لی، پھر اللہ تعالیٰ نے اُن کی دُعا قبول کر لی اور چند سالوں بعد اللہ تعالیٰ نے اُنہیں بیٹا (ہمایوں) دیا۔ سو، بشریٰ زندگی میں جس جس کے قریب رہی، اُس کے لیے خوش خبری، خوش حالی اور خوش قسمتی ہی کا باعث بنتی رہی۔
س:کیا بشریٰ بچپن میں بھی شرارتی، شوخ و چنچل تھیں، جیسی اب ہیں؟
ج:وہ گھر میں مِڈل چائلڈ تھی، ایک یونہی سا بچّہ۔ اوپر سے ستم یہ کہ دوسروں سے کم خُوب صُورت، حد سے زیادہ دبلی پتلی، سانولی سلونی، گھر میں اُسے کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ وہ اکثر ہم سایوں کے گھر جاکر بیٹھ جاتی اور اپنی دل چسپ باتوں سے اُن کی توجّہ حاصل کرنے میں کام یاب رہتی۔ اُس نے ٹھان رکھی تھی کہ وہ اپنے آپ کو غیر اہم نہیں ہونے دے گی۔ بچپن میں امّی اسے لڑکا بنانے کے لیے نیکر اور شرٹ پہناتیں۔اُنہیں کیا پتا تھا کہ یہ ایک دبنگ اور انوکھی لڑکی ہے، جو زندگی کا مَردوں سے بڑھ کر مردانہ وار مقابلہ کرے گی۔
تھوڑی سی بڑی ہوتے ہی اس نے ریڈیو اور ٹی وی کے چھوٹے چھوٹے پروگرامز میں حصّہ لینے کی ابتدا کر دی۔ ریڈیو اور ٹی وی کے ننّھے ننّھے چیک بھی اسے بہت اعتماد دینے لگے۔ غالباً اُس وقت ہی سے اس کی زندگی کا ایک لائحۂ عمل مرتّب ہونا شروع ہو گیا تھا۔ اس میں کچھ کر دِکھانے کی اُمنگ تھی۔
س :آپ کے گھر ابنِ انشاء اور ممتاز مفتی کا اکثر آنا جانا رہتا تھا، وہ یادگار دن بھی حافظے میں محفوظ ہوں گے؟
ج: مجھے یاد ہے، ابنِ انشاء اور ممتاز مفتی ہمارے گھر میں والدہ کے چولھے کے آگے بیٹھ کر کھانا کھاتے۔ اُن میں بڑے ادیبوں والی کوئی چمک دمک نہ تھی، لیکن اُن کی تخلیق کی عظمت سے ہم سب واقف تھے۔
ممتاز مفتی کی ہمارے خاندان کے ساتھ دوستی نسل در نسل چلنے والی ذیابطیس کی طرح تھی۔ ہم ساری بہنیں مفتی جی کے گھٹنوں سے لگی اُن کی مزے دار باتیں سُنتیں۔
امّی اور ابّا کی شادی کے وقت حق مہر کے جھگڑے پر بارات کو واپس جانے سے روکنے کے کام سے لے کر اگلی نسل کے بچّوں اور بچیوں کے نام رکھنے تک، اُن سے یوں مشورہ مانگا جاتا، جیسے وہ ہمارے کوئی قبائلی سردار ہوں۔ مجھے لکھنے کی طرف مائل کرنے والے بھی ممتاز مفتی ہی تھے۔ جب بھی لاہور آتے، ہم بہنوں سے پنجابی گانے سُننے کی ضرور فرمائش کرتے۔
س: والد صاحب نے کبھی آپ کے لکھنے لکھانے کی حوصلہ افزائی کی یا اُن سے اصلاح لی؟
ج: مَیں نے بچپن ہی سے بچّوں کے رسائل کے لیے لکھنا شروع کردیا تھا۔ گھر کا ماحول علمی و ادبی تھا، لیکن اُنہوں نے کبھی کُھل کر میری حوصلہ افزائی نہیں کی۔ البتہ ایک بار اپنی بہن، پروین عاطف کو(جو خود بھی معروف افسانہ نگار اور سفر نامہ نگار تھیں) خط میں لکھا کہ ’’یہ لڑکی خوف ناک معلوم ہوتی ہے۔ اس کی ذہانت سے خوف آتا ہے۔‘‘ سال ہا سال بعد وہ خط میرے ہاتھ آیا، تو مَیں حیران رہ گئی کہ مَیں بچپن میں ایسی تھی۔ ممتاز مفتی اکثر کہا کرتے تھے کہ احمد بشیر کے جینز کا جوار بھاٹا ان لڑکیوں کو چَین سے بیٹھنے نہیں دے گا۔
احمد بشیر اور محمودہ کے بچّوں میں سے کسی نے رائٹر، اداکار، ہدایت کار، گلوکارہ، ڈیزائنر تو بننا ہی تھا۔ آرٹ، کلچر اور ٹیلنٹ کے دریا گھر میں بہہ رہے تھے، سو یہ تو ہونا ہی تھا۔ کالج کے زمانے میں میرا’’ اخبارِ جہاں‘‘ میں ایک افسانہ چَھپا، تو ممتاز مفتی نے اسلام آباد سے خط لکھ کر اُس کی خاص طور پر تعریف کی۔
س: آپ کا شادی کے بعد امریکا جانا اور پھر واپس آنا،یہ کیا قصّہ ہے؟
ج: زندگی نشیب و فراز کا نام ہے اور تلخیوں کا پامردگی سے مقابلہ کرنا ہی حقیقی زندگی کا حُسن ہے۔ مَیں اُس وقت پنجاب یونی ورسٹی میں ایم اے اپلائیڈ سائیکالوجی کے سال اول میں پڑھ رہی تھی، جب امریکا سے پاکستان آئے ایک نوجوان ڈاکٹر سے جَھٹ منگنی، پَٹ بیاہ کے مِصداق میری شادی ہوگئی۔ یہ اریجنڈ میرج ایک’’ وچولن‘‘ کے توسّط سے ہوئی تھی۔ والد صاحب نے بھی ہاں کردی کہ ہر والد اپنی بیٹی کے لیے اچھا ہی سوچتا ہے اور مَیں نے بھی والدین کے آگے سَر جُھکا دیا۔
مَیں نے اپنے شوہر کے خدو خال اچھی طرح اُس وقت دیکھے، جب ہم امریکا جاتے وقت جہاز میں بیٹھے۔ امریکا جاتے ہی جن حالات کا سامنا کرنا پڑا، وہ میری توقّعات کے بالکل برعکس تھے۔ ذہنی ہم آہنگی کا فقدان، ہمارے درمیان ایک ایسا پہاڑ بن گیا، جسے مَیں کے- ٹو کی چوٹی کی طرح کبھی سَر نہ کرسکی۔
یہ ایک ایسی سُرنگ تھی، جس سے باہر نکلنا بھی مشکل تھا۔ مَیں 1972ء میں امریکا گئی اور وہاں 14 سال قیام کے دَوران تین بیٹیاں پیدا ہوئیں، جو اب اپنے بچّوں کے ساتھ خوش گوار زندگی بسر کر رہی ہیں۔ اس دَوران پاکستان آنا جانا لگا رہا۔ تاہم، 80ء کی دہائی کے آخر میں مستقل طور پر پاکستان آگئی۔ اُس وقت میرے اندر تپتے ہوئے صحرا سے میٹھے پانیوں کا چشمہ پُھوٹ چُکا تھا۔ کتاب سے محبّت تو باپ سے وَرثے میں ملی تھی، چناں چہ جب اپنے بچّوں کے سِوا کوئی ساتھی نظر نہ آیا، تو مَیں نے کتاب کو رفیقِ حیات بنا لیا۔ میرے اندر تخلیق کا ننّھا دیا بھڑک اُٹھا۔ جس کے اندر چُھپے درد کے آتش فشاں اُسے کندن بنانے میں لگے تھے۔ امریکا میں قیام کے دَوران’’ اخبارِ جہاں‘‘ کے لیے افسانے لکھتی تھی۔
شادی سے پہلے پاکستان میں ابنِ انشاء میری تحریروں کی تعریف کر چُکے تھے۔ پاکستان واپس آئی، تو میرے اندر کا تخلیق کار سَر چڑھ کر بولنے لگا۔ یوں سمجھیے، وطن واپس آ کر مَیں نے خود کو ازسرِ نو دریافت کیا۔ میرا پہلا افسانوی مجموعہ ’’گلابوں والی گلی‘‘ تھا، جو 1990 ء میں شائع ہوا۔ اس کی افتتاحی تقریب میں پروین عاطف نے کہا کہ ’’نیلم کے افسانوں کا شمار ادبِ عالیہ میں کیا جاسکتا ہے‘‘۔ اس کے بعد میرے 6افسانوی مجموعے، دو سفر نامے، ایک ناول اور خاکوں پر مشتمل ایک کتاب ’’چار چاند‘‘ شائع ہو چُکی ہیں اور مجھے فخر ہے کہ پاکستان، بھارت، یورپ، امریکا اور کینیڈا میں مقیم اردو ادب کے قارئین نے میری تحریروں کو پسند کیا۔
س: آپ کی پہلی کتاب پر والد صاحب کا کیا ردّ ِعمل تھا؟
ج: مَیں اور پھپھو، پروین عاطف ڈرتے ڈرتے اُن کے پاس گئے اور اُنہیں اپنی پہلی کتاب دِکھائی۔ دراصل، مجھے احساسِ کم تری تھا کہ اِتنا بڑا رائٹر یہ نہ کہہ دے کہ’’ تم نے یہ کیا لکھ دیا ہے۔‘‘ لیکن اُنہوں نے میری حوصلہ افزائی کی۔ پھپھو نے میری کتاب کے ابتدائیے میں لکھا کہ’’ مَیں آج بھرم سے کہہ سکتی ہوں کہ میری پیش گوئی ٹھیک ثابت ہوئی اور نیلم نے پچھلے چند برسوں میں جو بھی لکھا، وہ ادبِ عالیہ میں شمار ہوا‘‘۔
بہرحال، جو ادبی سفر امریکا سے واپسی پر 1990 ء میں شروع ہوا، وہ آج بھی جاری ہے۔ ظاہر ہے، والد صاحب کا مقابلہ تو نہیں کرسکتی، لیکن اُن کی چھوڑی ہوئی ادبی روایات کو ہرممکن حد تک نبھا رہی ہوں۔
س: آپ 14سال امریکا میں رہیں، کیا وہاں کے مشاہدات بھی قلم بند کیے؟
ج: میرا 2020 ء میں شائع ہونے والا ناول’’طائوس فقط رنگ‘‘ سمندر پار پاکستانی تارکینِ وطن کے سماجی اور ثقافتی مسائل پر لکھا گیا ہے۔ بالخصوص نائن الیون کا واقعہ اس کا خاص موضوع ہے، کیوں کہ مَیں خود اس حادثے کے وقت امریکا میں تھی۔ اس میں امریکا میں انسانی رشتوں کی ٹُوٹ پُھوٹ کا بھی تذکرہ ہے۔ یورپ اور امریکا میں اصول پسندی اور آزادی اپنی جگہ، لیکن باہمی رشتوں کا زوال ایک المیہ ہے، جو چکا چوند روشنیوں میں ذرا کم ہی دِکھائی دیتا ہے۔
مَیں نے اپنے افسانوں میں عورتوں کے مسائل کو زیادہ ڈسکس کیا ہے۔ ادبی نقّادوں کے بقول، میری اکثر کہانیوں میں گونگی، بہری عورتوں کی چیخیں سُنائی دیتی ہیں۔ میں کسی کے ساتھ ظلم، زیادتی برداشت نہیں کرسکتی۔ بچپن میں ایک بار امّی نے شرارت پر مارا، تو مَیں اندر سے ڈنڈا لے کر آئی اور امّی سے کہا کہ ’’لو، مجھے مار ڈالو‘‘۔ اس پر سب ہنسنے لگے۔ اگر کوئی گدھا گاڑی والا گدھے کو ڈنڈے سے مارے، تو مَیں اپنی گاڑی روک کر اس کی سرزنش کرتی ہوں، جب کہ راہ گیر مجھے خبطی سمجھتے ہیں۔ حسّاس ہونے کی وجہ سے مَیں نے بچپن میں گھر میں بڑی بہن ہونے کے ناتے سب بہنوں کو اپنے پَروں تلے رکھا۔
س: کیا یہ والد صاحب کی تربیت کا نتیجہ تھا؟
ج: ہمارے والد روایتی باپ نہ تھے۔ اُن کی سوچ دوسروں سے مختلف تھی۔ کسی بیٹی پر اپنی مرضی نہ ٹھونسی، بلکہ اُنہیں ایسا اعتماد دیا، جو آگے چل کر اُن کی زندگی کا زیور بن گیا۔ بالخصوص مَیں تو عملی طور پر اُن کے طرزِ عمل سے گزری ہوں۔ مَیں13 برس کی تھی، مجھے پیسے دے کر اکیلا ٹولنٹن مارکیٹ سے مرغی لینے بھیج دیا اور بتا دیا کہ فلاں فلاں بس پر جائو۔ مَیں ڈر گئی، لیکن انکار نہ کرسکی۔ یوں زندگی میں پہلی بار اکیلی گھر سے نکلی اور خریداری بھی کرلی۔ اُس وقت تو مجھے ابّاجان پر غصّہ آیا، لیکن بعد میں احساس ہوا کہ ابّا نے مجھے خود اعتمادی کا اہم سبق پڑھانے کے لیے یہ سب کچھ کیا تھا۔
اُس وقت مَیں نے سوچا بھی نہ تھا کہ زندگی میں آگے چل کر سب کام مجھے خود کرنے ہوں گے۔ شاید وہ مجھے آئندہ زندگی میں تنہا ہونے کے لیے تیار کر رہے تھے۔ بچین میں اور پھر جوانی میں، مَیں ابّا کے تمام دفتری امور میں معاونت کرتی تھی۔ یعنی ڈرائیونگ، آرٹیکل چَھپوانا، پبلشرز کو کتابیں دینا اور لے کر آنا، امّی اور ابّا کو ڈاکٹر کے پاس لے جانا، یہ سب کام بخوشی کرتی تھی۔ اس حوالے سے مَیں اُن کی’’ سرکاری بیٹی‘‘ کے طور پر مشہور تھی۔
س: اپنی کوئی عادت، جو آپ کو ناپسند ہو اور والدین کو بھی؟
ج: برتن توڑنے کی بچپن کی عادت سے اب تک پیچھا نہیں چُھڑا سکی۔ ابّا اپنے دوستوں سے اکثر میری اس عادت کا ذکر کرتے، لیکن اُنہوں نے کبھی ڈانٹا نہیں، اِس لیے مجھے بھی اپنی اس کم زوری کا کبھی سنجیدگی سے احساس بھی نہیں ہوا، لیکن شادی کے بعد امریکا گئی اور برتن توڑنے کا یہ سلسلہ جاری رہا، تو پھر معلوم ہوا کہ شوہر کے نزدیک تو میری یہ غلطی گناہِ کبیرہ تھی۔ ابّاجان کو شوہر کی ناراضی کا علم ہوا، تو اُنہوں نے اُنہیں خط لکھا کہ ’’بیٹا مجھے پتا ہے کہ وہ برتن توڑتی ہے، لیکن کسی کا دل نہیں توڑتی‘‘۔لیکن میرے شوہر کو یہ جملہ سمجھ نہ آسکا۔
س: آج کل کس پراجیکٹ پر کام کر رہی ہیں؟
ج: کورونا نے گھر سے باہر نکلنا موقوف کر دیا ہے اور زندگی منجمد ہو کر رہ گئی ہے۔ گھر میں رہو، تو ظاہر ہے، قلم حرکت میں رہتا ہے۔ مَیں اِن دنوں ایک پنجابی ناول لکھ رہی ہوں۔ اس کے علاوہ ابّا جان کا بہت سا نامکمل کام بھی مکمل کرنا چاہتی ہوں۔ انتقال سے پہلے اُنہوں نے ایک بوری میں بند مسوّدات، کتب، انگریزی، اردو مضامین میرے سپرد کیے تھے کہ میرے اس دنیا سے جانے کے بعد اُنہیں پھینک دینا۔
ان میں علم جفر پر ایک نایاب مسوّدہ بھی شامل تھا۔ اُنہیں اس علم سے بہت دل چسپی تھی اور بھارت سے نادر مسوّدات لے کر آئے تھے، لیکن وہ کتاب مکمل نہ کرسکے۔ مَیں اس پر بھی کام کر رہی ہوں۔شعر کہتی ہوں، لیکن کبھی مجموعہ چَھپوانے کا نہیں سوچا، ویسے ہمارے خاندان میں نثر کی حکم رانی ہے۔
س: آپ بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں۔ پاکستان میں افسانہ نویسی کو کس نظر سے دیکھتی ہیں؟ کیا عام تاثر کے مطابق یہ زوال پذیر ہے؟
ج: افسانہ کبھی بھی زوال پذیر نہیں رہا اور نہ ہوگا، کیوں کہ تخلیق کا سفر تو جاری رہتا ہے۔ آپ اسے کیسے روک سکتے ہیں۔ تخلیق کار ہر زمانے میں اپنے ماحول اور گردو بیش کی عکّاسی کرتے رہے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں۔ اصل میں جو لوگ اس کے زوال پذیر ہونے کا شکوہ کرتے ہیں، وہ ادب پڑھتے ہی نہیں۔ ہمارے ہاں نئی لکھنے والی خواتین اور نوجوان، جو پاکستان کے کسی کونے کھدرے میں ہی کیوں نہ ہوں، اپنی بساط کے مطابق خُوب صُورت افسانے لکھ رہے ہیں۔
البتہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ احمد ندیم قاسمی، منٹو، خدیجہ مستور، قراۃ العین حیدر جیسے لوگ کبھی کبھار ہی جنم لیتے ہیں، لیکن اگر اِس وقت کوئی بڑا نام سامنے نہیں، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ تخلیق کا بہائو رُک گیا ہے۔ آج کی کئی گم نام تحریریں ہو سکتا ہے، مستقبل میں ادب کا جھومر بن جائیں۔
س: زندگی سے کیا سیکھا؟
ج: انسانی رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ اور دِل شکستگیاں مجھے بہت بُری لگتی ہیں۔ اِس مختصر سی زندگی میں پتا نہیں کیوں ہم ایک دوسرے کو معاف کرنا نہیں سیکھتے۔زندگی میں نشیب و فراز تو امتحان ہوتے ہیں، انسان چاہے تو ان طوفانی لہروں میں بھی خود کو سیپ کے اندر کسی موتی کی طرح پُرسکون رکھ سکتا ہے، لیکن اس کے لیے صبر اور تحمّل چاہیے۔ زندگی سے کبھی ناراض نہیں ہونا چاہیے، کیوں کہ المیوں کے باوجود بالآخر انسان کو جینے کا ہنر آہی جاتا ہے۔
ہر شخص کے اندر اس کی سوچ کا دیا ایک جھلمل روشنی پیدا کرتا ہے۔ مَیں نے بھی بالآخر آزمائشوں کے بعد جینے کا ہنر سیکھ لیا ہے۔ اب قلم ہی میرا رفیقِ حیات ہے، جس کے سہارے داستانوں کی نگری میں اُتر جاتی ہوں اور اُنہیں مالا بناکر گلے میں پہن لیتی ہوں۔ ہاں! ایک اور سبق یہ بھی سیکھا ہے کہ والدین کو شروع ہی سے اپنے بچّوں میں خود اعتمادی پیدا کرنی چاہیے۔
ان والدین کو آخر میں پچھتانا پڑتا ہے، جو اپنے بچّوں کو ہاتھ کا چھالا بنا کر رکھتے ہیں اور بے حد لاڈ پیار اور اُن پر ذمّے داری ڈالنے سے گریز کرکے اُنہیں اس خود اعتمادی سے محروم کر دیتے ہیں، جو مستقبل میں اُن کی کام یاب زندگی کا سب سے بڑا سہارا بن سکتی ہے۔