اسلام آباد( این این آئی، جنگ نیوز) چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سینیٹ الیکشن سے متعلق صدارتی آرڈیننس اگر مشروط نہ ہوتا تو کالعدم قرار دے دیتے،حکومت نے قیاس آرائیوں کی بنیاد پر آرڈیننس جاری کیا ہے، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ عدالت ریفرنس کا جواب نفی میں دیتی ہے تویہ خود بخود غیرمؤثر ہوجائیگا، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آرٹیکل 226 کے تحت وزیراعظم اور وزراء سمیت دیگر انتخابات کا طریقہ کار خفیہ کیوں رکھا گیا ؟ پیر کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجربنچ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کی اور الیکشن ایکٹ سے متعلق صدارتی آرڈیننس کے خلاف جے یو آئی کی درخواست پر نوٹس لیا۔ عدالت نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم سے متعلق گزشتہ دنوں جاری ہونے والے صدارتی آرڈیننس کے خلاف جے یو آئی کی درخواست پر اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیا۔ اس موقع پر سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ کوئی بھی سیاسی جماعت سینیٹ میں بدعنوان لوگوں کی نمائندگی کی حامی نہیں، سندھ حکومت کے ذریعے پیپلزپارٹی یہاں فریق ہے، حکومت جماعت سے الگ نہیں ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ نہ حکومت سیاسی جماعت کی طرف سے بات کرسکتی ہے نہ سیاسی جماعت حکومت کی طرف سے، اٹارنی جنرل نے کہا بڑی عجیب بات ہے، ایڈووکیٹ جنرل سندھ پیپلزپارٹی کی نمائندگی کررہے ہیں، میں یہاں پی ٹی آئی کی طرف سے نہیں وفاق کی نمائندگی کررہا ہوں۔ وکیل جے یو آئی کامران مرتضیٰ نے عدالت میں کہا کہ حکومت نے صدارتی ریفرنس کے حوالے سے عدالتی کارروائی کا احترام نہیں کیا، عدالت اوپن بیلٹ کے بارے میں صدارتی ریفرنس سن رہی ہے اور آرڈیننس جاری کردیا گیا۔ اس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آرڈیننس کو ہائیکورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔