• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر جو بائیڈن نے حال ہی میں مشرق وسطیٰ کی پالیسی کے حوالے سے اہم اعلان کرتے ہوئے امریکہ کی یمن کی لڑائی میں مزید مداخلت نہ کرنے کا اعلان کیا، تاہم صدر نے مزید کہا کہ امریکہ سعودی عرب کی جغرافیائی سلامتی، خودمختاری اور عوامی یکجہتی کی حمایت کرنا اور اس ضمن میں بھرپور حمایت اور تعاون کرتا رہے گا۔ دُوسرے لفظوں میں سعودی عرب کی سلامتی اور خودمختاری کے حوالے سے امریکہ سعودیہ کے ساتھ کھڑا ہے، البتہ یمن میں جاری لڑائی میں وہ یمن میں مذاکرات کے ذریعے ملک میں امن قائم کرنے اور عوام کو مصائب کی دلدل سے باہر نکالنے کی حمایت کرتا ہے۔ وائٹ ہائوس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ صدر جوبائیڈن یمن میں القاعدہ اور داعش کی سرگرمیوں کے دائرئہ کار کو روکنے اور ان انتہاپسند تنظیموں کو یمن میں عسکری اڈّے قائم کرنے سے روکنے کی حمایت کرتا ہے۔ 

امریکی صدر کے اس اچانک اعلان سے سعودی عرب کے سیاسی حلقوں میں بیش تر خدشات اور سوالات پائے جاتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ ایران کی خلیج میں جغرافیائی حیثیت مسلمہ ہے۔ اس خطّے سے دُنیا کو تیل کی چالیس فیصد فراہمی عمل میں آتی ہے۔ ایران نے حال ہی میں روس اور چین سے اپنے تعلقات کو مزید گہرے بنانے پر کام شروع کر دیا ہے اور یہ دونوں بڑی طاقتیں ایران کو جدید ہتھیار فراہم کرنے کے سودے بھی طے کر رہے ہیں اور ایران کی جاری پالیسوں کو مدنظر رکھتے ہوئے خدشات ہیں کہ وہ خطّے کی اس حامی انتہاپسند تنظیموں کی اعانت جاری رکھے گا۔ ایسے میں صدر جوبائیڈن کی مشرق وسطیٰ کی حالیہ پالیسی کے اعلان سے مزید سوالات اُبھرتے ہیں۔

امریکی صدر کے حالیہ اہم اعلان کے پس منظر میں بتایا جاتا ہے کہ اقوام متحدہ سمیت بیش تر عالمی تنظیموں کے یمن کے جاری حالات کے بارے میں شدید خدشات اور خطرات ہیں۔ اقوام متحدہ نے دسمبر 2020ء میں یمن میں جاری مخدوش حالات کے حوالے سے جو رپورٹ مرتب کی ہے اس کے مطابق یمن میں گزشتہ برسوں میں ملک میں خوراک، دوائوں، پانی کی کم یابی اور ہوائی بمباری کی وجہ سے تاحال دو لاکھ چالیس ہزار بچّے اور بالغ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ملک میں بنیادی سہولتوں کا زبردست فقدان ہے، جبکہ دو کروڑ چالیس لاکھ کی آبادی شدید کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور خدشات لاحق ہیں کہ مزید بڑا انسانی المیہ نہ رونما ہو جائے۔ 

اس نوعیت کے خدشات اور خطرات کا اظہار یورپی ممالک سمیت دیگر باخبر ممالک کی انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی کیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ 2011ء میں عرب اسپرنگ کی زبردست احتجاجی تحریک میں مشرق وسطیٰ جہاں جہاں آمریت اور مطلق العنان حکومتیں قائم تھیں ان کے خلاف نوجوانوں نے بڑی منظم تحریک چلائی تھی جو تیونس سے شروع ہو کر مشرق وسطیٰ میں یمن تک پھیل گئی تھی جس کے نتیجے میں یمن کے مطلق العنان حکمراں علی عبداللہ صالح جو چونتیس برسوں سے اقتدار پر قابض تھے مجبوراً اقتدار سے الگ ہونا پڑا اور ان کے نائب صدر منصور ہادی نے ان کو اقتدار سے نکالا اور خود اپنی صدارت کا اعلان کر دیا۔ صدر ہادی نے اپنے اقتدار کو جاری رکھنے کے لئے ہرممکن اقدام کئے مگر انہیں باغی فوجیوں اور علیحدگی پسندوں سے نبردآزما ہونا پڑتا رہا۔ 

اس پر ستم یہ کہ ملک میں بدعنوانی، کرپشن، کمزورترین حکمرانی، مہنگائی، اشیاء صرف کی شدید قلت اور دیگر سہولیات کی نایابی نے حکومت کے مسائل میں مزید اضافہ کر دیا، جبکہ شمالی یمن میں باغی حوثی قبائل جو زیدی شیعہ مسلک سےوابستہ ہیں۔ ہادی حکومت کے لئے بڑا خطرہ ثابت ہو رہے تھے، جو کئی برسوں سے سابق صدر علی عبداللہ صالح کے خلاف بھی لڑتا آ رہا تھا اب صدر ہادی کے خلاف لڑ رہا۔ حوثی باغیوں کی تنظیم انصار اللہ کو ایران کی پوری حمایت اور اعانت حاصل تھی۔ حوثی جنوب میں کمزور حکومت کا پورا فائدہ اُٹھا رہے تھے۔ 

ایسے میں صدر منصور ہادی نے اپنے منصب سے استعفیٰ دیدیا اور اقتدار سے الگ ہوگئے اور ایک عبوری انقلابی کونسل قائم کر کے محمد علی الحوثی کو قائم مقام صدر بنا دیا۔ محمد علی الحوثی شمال سے فرار ہو کر جنوب میں پناہ لینا چاہتا تھا، جہاں اس نے بعض جنگجوئوں کو جمع کر کے اپنا مسلح گروہ تیار کیا اور حکومت بھی سنبھال لی۔ اس اثناء میں سابق صدر منصور ہادی فرار ہو کر ریاض پہنچ گیا۔ سعودی عرب نے حوثی باغیوں کے خلاف ہوائی حملے شروع کر دیئے۔ اس سے کچھ قبل انتہاپسند تنظیم القاعدہ نے جنوبی یمن میں اپنے ٹھکانے قائم کرنے اور بعض گروہوں کی شمال کے خلاف مدد فراہم کرنی شروع کی۔

2013ء میں سابق صدر منصور ہادی نے امریکہ کا دورہ کیا تھا جہاں انہوں نے وائٹ ہائوس کو یمن کی صورت حال سے پوری طرح آگاہ کیا تھا۔ ان حالات میں سعودی عرب نے سعودیہ میں کام کرنے والے پانچ لاکھ سے زائد یمنیوں کو ملازمتوں اور سعودی عرب سے نکال دیا۔ یمن میں مزید حالات خراب ہوگئے۔ پہلے ہی ملک میں غربت، بے روزگاری، مہنگائی اور اشیاء خورونوش کی شدید قلت کا بحران جاری تھا اور اب مزید سنگین ہوگیا۔ یمن کے پاس پینے کے پانی کی ہمیشہ شدید قلت رہی ہے اب موسمی تغیرات اور آبادی میں اضافے نے پینے کے پانی کی بھی قلت میں مزید اضافہ کر دیا۔ بھوک پیاس بیماریوں سے عاجز لاکھوں عوام کی حالت زار بہت ناگفتہ بہ ہو چکی ہے۔ یمن کی لاکھوں کی آبادی کی زندگیوں کو مختلف خطرات لاحق ہیں۔ 

مشرق وسطیٰ کی دو بڑی اسلامی مملکتیں سعودی عرب اور ایران کی آپس میں مخاصمت اور خطّے میں اپنی اپنی بالادستی قائم کرنے کی جدوجہد کی وجہ سے پورے خطّے کا امن خطرے میں گھرا نظر آتا ہے۔ ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکی صدر جوبائیڈن نے حالیہ قدم اُٹھایا ہے اس سے اُمید کی جا سکتی ہے کہ یمن میں بہتری کے آثار نمایاں ہونے لگیں مگر ایران اور سعودی عرب کی یمن میں جاری پراکسی وار کا خاتمہ یک طرفہ طور پر ممکن نہیں ان دونوں ممالک کو اس مسئلے کو سنجیدگی سے پرامن طور پر حل کرنا ہوگا۔

یمن کی جدید تاریخ بھی خاصی پیچیدہ اور غیرملکی طاقتوں کی مداخلت کی وجہ سے مزید اَبتر رہی ہے۔ اُنیسویں صدی میں سلطنت عثمانیہ کی یمن سے واپسی کے بعد وہاں برطانیہ نے عدن کی بندرگاہ اور اطراف کے علاقے میں اپنے عسکری اڈّے قائم کئے۔ 1967ء میں جنوبی یمن سے برطانیہ کی واپسی کے بعد 1970ء میں جنوبی یمن کی حکومت نے سوشلسٹ حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا۔ روس نے یمن سے فوجی معاہدے کئے، بعدازاں 1990ء میں شمالی اور جنوبی یمن نے ایک معاہدہ کے مطابق متحدہ یمن ریپبلک قائم کی، مگر چار سال بعد پھر سول وار شروع ہوگئی۔ شمالی جنوب کا تنازع پھر سے تازہ ہو گیا۔

اکتوبر 2000ء میں انتہاپسند تنظیم القاعدہ نے اُسامہ بن لادن کی سربراہی میں عدن کی بندرگاہ پر لنگرانداز امریکی بحریہ کا لڑاکا جہاز کو دو خودکش بمباروں کے ذریعے نشانہ بنایا جس سے بحری جہاز کو شدید نقصان ہوا اور سترہ امریکی میرینز اس حملے میں ہلاک ہوگئے۔ جس کی ذمہ داری القاعدہ نے قبول نہیں کی تھی۔ دُوسرے ہی دن ایف بی آئی تحقیقات کی غرض سے یمن پہنچ گئی تھی۔

یمن کی حکومت نے اس حملے کو ایک حادثہ قرار دیا تھا مگر امریکی سراغرساں ادارے تحقیقات کا دائرہ وسیع کرتے اور آگے بڑھتے ہوئے یہ بات سب پر عیاں تھی کہ صومالیہ میں القاعدہ کے مراکز رہے ہیں۔ مارچ 2001ء میں الجزیرہ ٹی وی نے اپنی نشریات میں اُسامہ بن لادن کو ایک نظم پڑھتے ہوئے دکھایا تھا جس میں وہ کسی نوجوان کے لئے کہہ رہے تھے ایک نوجوان بہادر نے بڑی طاقت کا جہاز تباہ کر کے اس بڑی طاقت کو خوف زدہ کر دیا ہے۔

یمن میں تاحال کہا جاتا ہے کہ القاعدہ اور داعش سرگرم ہیں۔ اس طرح 2015ء سے 2021ء تک یمن میں خانہ جنگی خون ریزی، مصائب کے پہاڑوں کا سلسلہ کوہ گراں جاری ہے۔ یمن کی مجموعی آبادی دو کروڑ نوے لاکھ کے قریب ہے۔ رقبہ پانچ لاکھ ستائیس ہزار مربع میل کےلگ بھگ ہے۔ حوثی باشندوں کی تعداد 32 فیصد ہے۔ سُنّی مسلمان باشندوں کی تعداد 65 فیصد ہے باقی 3 فیصد میں دیگر مذاہب اور نسل کے باشندے شامل ہیں۔

امریکی صدر بائیڈن نے یمن کے حوالے سے اپنی خارجہ پالیسی میں یا امریکی خارجہ پالیسی میں جو تبدیلی پیدا کی وہ بہت سے لوگوں کے لئے چونکا دینے والی نہیں ہے کیونکہ جوبائیڈن نے اپنی صدارتی انتخابی مہم کے دوران داخلی، خارجی، معاشی اور سیاسی پالیسیوں کے حوالے سے واضح اشارے دیئے تھے۔ ایران کے حوالے سے بائیڈن نے سابق صدر ٹرمپ کی پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے ایران پر واضح کر دیا تھا کہ اگر ایران اپنے جوہری پروگرام پر سنجیدگی سے نظرثانی کرے گا تو 2015ء کا امریکہ۔ 

ایران جوہری معاہدہ پھر بحال ہو سکتا ہے اور ایران پر سے اقتصادی پابندیوں کو نرم کرنے پر بھی غور کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اب اس مسئلے پر کچھ کام شروع کر دیا ہے۔ سعودی عرب کے حوالے سے امریکی صدر بائیڈن کی پالیسی خاصی غور طلب ہے۔ امریکہ نے یمن کے حوالے سے واضح کر دیا کہ سعودی عرب اور ایران دونوں کو یمن میں پراکسی وار ختم کرنا ہوگی۔ مذاکرات کے ذریعہ مسئلے کا حل تلاش کرنا ہوگا۔

صدر بائیڈن نے اپنی خارجہ پالیسی میں جو بھی تبدیلیاں کی ہیں وہ سابق صدر ٹرمپ کے دور کی پالیسی سے یکسر مختلف ہیں۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ وہ ٹرمپ نہیں ہیں، اب امریکہ کی خارجہ پالیسی دُنیا دیکھے گی۔ انہیں اب ایک الگ امریکہ نظر آئے گا۔ انہوں نے یہ کہا کہ وہ عالمی رہنمائوں پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ امریکہ آئندہ چار برسوں میں کیا کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ دوطرفہ تعلقات کو اہمیت دیتا ہے۔ امریکہ جمہوری اور جمہوریت کی اہمیت اور اس کے اقدار کی پاسداری چاہتا ہے۔ انسانی حقوق سب سے اہم ہیں۔ ہم نے اپنی داخلی اور خارجہ پالیسی کے مابین کوئی انمٹ لکیر نہیں بنائی ہے دونوں محاذوں پر امریکہ کی پالیسی صرف امریکی مفاد کے تناظر میں تولی جائے گی۔

صدر بائیڈن نے اپنے خطاب میں روس پر واضح کر دیا کہ امریکہ ماضی قریب کی پالیسی کی طرح کسی بھی غیرمناسب اقدام سے نظریں نہیں ہٹائے گا۔ ہم اپنے انتخابات میں سائبر حملے یا مداخلت برداشت نہیں کریں گے۔ روس اپنے سیاسی مخالفین کو زہر دینے، گرفتار کرنے کی پالیسی ترک کرے۔ اس طرح کے واقعات قابل قبول نہیں۔ روس کی جوہری ہتھیاروں میں کمی کے معاہدہ کی مزید پانچ برسوں کی توسیع کو قابل ستائش قرار دیتے ہیں۔ چین ہمارا سنجیدہ حریف ہے اس کو انسانی حقوق ، جمہوری اقدار اور دانشورانہ املاک کی پاسداری کرنا چاہئے۔ امریکی صدر نے یمن کی خارجہ پالیسی کے ساتھ ساتھ دیگر معاملات پر بھی اپنا مؤقف واضح کر دیا ہے۔

تازہ ترین