• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر آسی خرم جہا نگیری

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:ترجمہ: اور قرابت داروں کو ان کا حق ادا کرو،محتاجوں اور مسافروں کو بھی (دو) اور (اپنا مال) فضول خرچی سے مت اڑاؤ۔بےشک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے اور اگر تم (اپنی تنگ دستی کے باعث) ان (مستحقین) سے گریز کرنا چاہتے ہو اپنے رب کی جانب سے رحمت (خوش حالی) کے انتظار میں جس کی تم توقع رکھتے ہو تو ان سے نرمی کی بات کہہ دیا کرو اور نہ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھا ہوا رکھو (کہ کسی کو کچھ نہ دو) اور نہ ہی اسے سارا کا سارا کھول دو (کہ سب کچھ ہی دے ڈالو) کہ پھر تمہیں خود ملامت زدہ (اور) تھکا ہارا بن کر بیٹھنا پڑے۔بے شک آپ کا رب جس کے لئے چاہتاہے رزق کشادہ فرما دیتا ہے اور (جس کے لئے چاہتا ہے) تنگ کر دیتا ہے، بےشک، وہ اپنے بندوں (کے اعمال و احوال) کی خوب خبر رکھنے والا خوب دیکھنے والا ہےo(سورۂ بنی اسرائیل:۲۶ تا۳۰)

ان آیات میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرابت داروں، محتاجوں اور مسافروں کے حق کی ادائیگی کی تلقین فرمائی ہے، اور ان کی مالی اعانت کے حوالے سے لوگوں کو متوجہ فرمایا ہے اور ارشاد فرمایا کہ اپنا مال فضول خرچی اورشاہ خرچی کے کاموں میں نہ اڑاؤ ،بلکہ اپنے قریبی عزیز و اقارب، والدین، بیوی بچوں،بہنوں بھائیوں کی حقیقی ضروریات پر خرچ کرو۔ اسی طرح ان کے علاوہ دیگر ضروت مندوں، محتاجوں اور مسافروں کی مالی طور پر امداد کرو۔ ایسے لوگوں کو حدیث میں قابل رشک قرار دیا گیا ہے۔

صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’صرف دوہی لوگ قابل رشک ہیں، ایک تو وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے مال و دولت عطا کیا اور اسے خیروبھلائی اورنیکی کے کاموں میں خرچ کرنے کی توفیق دی۔ دوسرا وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے حکمت یعنی عقل ودانائی اور معاملہ فہمی دی اور وہ اپنی حکمت کے مطابق درست فیصلے کرتا ہے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہے‘‘۔

خصوصاً اہل و عیال کی ضروریات پر خرچ کرنے کو حدیث میں صدقہ شمار فرمایا گیا ہے۔ صحیح بخاری میں ہے، سیدنا ابومسعود انصاری ؓ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جو مسلمان اپنے اہل و عیال پر اللہ کا حکم ادا کرنے کی نیت سے خرچ کرے تو اسے اس میں صدقہ کا ثواب ملے گا‘‘۔

اسی طرح ضرورت مندوں پر خرچ کرنے والوںکی فضیلت حدیث میں بیان کی گئی ہے۔صحیح بخاری میں سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا: بیوہ عورت اور مسکین کے ساتھ (اچھا) سلوک کرنے والا ایسا ہے ،جیسا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا یا جیسے رات کو عبادت کرنے والا اور دن کو روزہ رکھنے والا‘‘۔

اس کے علاوہ ان آیات میں لوگوں کو متنبہ کیا گیا کہ اگر تنگ دستی کی وجہ سے تم کسی کی مالی اعانت نہیں کر سکو تو ان سے سختی سے بات نہ کرو اور ان کی دل آزاری نہ کرو، بلکہ انہیں کسی مناسب وقت تک کے انتظار کا کہہ کر نرم بات کرو۔

آگے خرچ کرنے کاا نداز بتایا کہ جب مالی وسعت ہو اورلوگوں کی ضروریات کے حوالے سے مدد کے طور پر خرچ کرنے کا جذبہ ہو تواپنا ہاتھ اتنا کھلا نہ کرو کہ سب کچھ دے بیٹھو اور پھر ایمان کی کمزوری کی وجہ سے تنگ دستی کارونا رؤو اور نہ اپنا ہاتھ اتنا پیچھے کھینچو کہ بالکل گلے ہی سے لگا لو ، بلکہ درمیانی روش اختیا ر کرو۔

آگے آیت میں فرمایا کہ رزق کی کشادگی اور تنگی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے ،وہ جس کے لئے چاہتاہے رزق کشادہ فرما دیتا ہے اور جس کے لئے چاہتا ہے رزق تنگ کر دیتا ہے، بےشک وہ اپنے بندوں کے اعمال و احوال کی خوب خبر رکھنے والا خوب دیکھنے والا ہے کہ کون مال کے حقوق ادا کرتے ہوئے اسے اللہ کے راستے میں ، خیر کے کاموں میں اورصدقات و خیرات کے مصارف میں استعمال کر رہا ہے اور کون اسے گناہ و معصیت کے کاموں میں ، ذاتی شاہ خرچیوں میں لُٹا رہا ہے۔

ارشادِ ربانی ہے:’’اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ،اور والدین اور قرابت داروں سے بھلائی کرو۔(سورۃ النساء، 36)لہٰذا ہر قریبی عزیز پر واجب ہے کہ وہ اپنے قریبی رشتے دار سے صلہ رحمی کرے۔اس کی مالی اور اخلاقی لحاظ سے ہر ممکن مدد کرے۔صلہ رحمی کی ترغیب کے لیے بہت سی احادیث ہیں۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔(مسند الجامع)

بہت سے لوگ ہیں جو اس حق کو ضائع کر رہے ہیں اور کچھ اس میں کمی کرتے ہیں۔آپ ایسے لوگ بھی دیکھیں گے جو قرابت داری کا مطلق خیال نہیں کرتے۔ان کی مالی یا اخلاقی لحاظ سے کسی طرح بھی مدد نہیں کرتے۔کئی کئی مہینے گزر جاتے ہیں،وہ انہیں دیکھتے بھی نہیں۔نہ ملنے جاتے ہیں نہ انہیں کوئی ہدایہ بھیجتے ہیں، بلکہ انہیں ہر لحاظ سے دکھ پہنچانے کی منصوبہ بندی کرتے رہتے ہیں۔

کچھ لوگ ایسے ہیں کہ اگر قریبی رشتے دار صلہ رحمی کریں تووہ بھی کرتے ہیں اور اگر وہ تعلقات توڑدیں تو یہ بھی توڑ دیتے ہیں۔ایسا شخص حقیقتاً تعلق جوڑنے والا نہیں، بلکہ یہ تو ادلے کا بدلہ ہے۔دراصل تعلق جوڑنے والا وہ ہے جو تعلق کو اللہ تعالیٰ کی خاطر جوڑے اور یہ پروا نہ کرے کہ دوسرا بھی اتنا تعلق جوڑتا ہے یا نہیں جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:ادلے کا بدلہ دینے والا واصل(تعلق جوڑنے والا) نہیں۔

صلہ رحمی کرنے والا تو وہ ہے کہ اگر اس سے قطع رحمی کی جائے تو وہ پھر بھی تعلق جوڑے رکھے۔کسی نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: اےاللہ کے رسولﷺ !میرے کچھ رشتے دار ہیں۔میں ان سے صلہ رحمی کرتا ہوں، لیکن وہ قطع تعلق کرتے ہیں،میں ان سے بہتر سلوک کرتا ہوں ،لیکن وہ مجھ سے برا سلوک کرتے ہیں،میں ان کی باتیں برداشت کرتا ہوں، لیکن وہ مجھ سے جہالت کی باتیں کرتے ہیں۔نبی اکرم ﷺ نے یہ سن کر فرمایا:اگر بات ایسی ہے جیسی تو نے کہی ہے تو گویا تو نے ان کے چہروں کو خاک آلود کر دیا اور جب تک تو اس حالت پر برقرار رہے گا،ان کے خلاف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیشہ تیرا ایک مددگار رہے گا۔(صحیح مسلم)

صلہ رحمی میں صرف یہی بات نہیں ہوتی کہ اللہ تعالیٰ صلہ رحمی کرنے والے کو دنیا و آخرت میں اپنے احسان کا مستحق بنا کر اس پر رحمت فرماتا ہے،اس کے کام آسان بنا کر اس کی سختیاں دور کر دیتا ہے، بلکہ صلہ رحمی سے خاندان میں باہمی قربت اور محبت پیدا ہوتی ہے۔افرادِ خاندان ایک دوسرے پر مہربان اور مصائب میں ایک دوسرے کے معاون ہوتے ہیں ،جس کے نتیجے میں انہیں مسرت اور راحت حاصل ہوتی ہے۔

دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں مالی حقوق کو کامل طریقے سے ادا کرنے اوراللہ کے راستے میں نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی توفیق نصیب فرمائے۔( آمین)

حسد اور بدگمانی…بدترین گناہ

حضرت ابو ہریرہؓ سے مرو ی ہے کہ حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: بدگمانی سے بچو، کیوںکہ بدگمانی سے زیادہ بے بنیاد چیز کوئی نہیں۔ ٹوہ میں رہنے اور کان لگانے سے احتراز کرو۔ دنیا کی دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کی کوشش نہ کرو۔ دوسروں سے حسد نہ کرو۔ آپس میں بغض و کینہ نہ رکھو۔ ایک دوسرے کے دشمن نہ بنو، ان برائیوں سے بچ کر اللہ کے بندے بن جاؤ اور آپس میں بھائیوں کی طرح رہو…(مؤطّا امام مالک )

تازہ ترین