• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترکی اگرچہ عالمِ اسلام میں ایک مثالی جمہوری ملک کی حیثیت رکھتا ہے لیکن بدقسمتی سے اس کا موجو دہ آئین ایک فوجی ڈکٹیٹر کی جانب سے 1982 میں تیار کیا گیا اور کئی ایک شقوں میں ترامیم کرتے ہوئے اس پر آج بھی عمل درآمد جاری ہے۔ ترکی کے مو جودہ صدر ایردوان نے گزشتہ دنوں ایک بیان میںکہا کہ وقت آگیا ہے کہ ترک قوم کو اس کے شایانِ شان ایک سول آئین تیار کرکے دیا جائے۔ انہوں نے حزبِ اختلاف کو ملک میں نیا سول آئین تیارکرنے کی تجویز پیش کی ہے جس پر حزبِ اختلاف کی جانب سے ابھی تک کسی قسم کا کوئی مثبت ردِ عمل سامنے نہیں آیا ۔ جمہوریہ ترکی کے1923 میں قیام کے بعد ملک میں پہلا جمہوری آئین جمہوریہ ترکی کے بانی غازی مصطفیٰ کمال کی جدو جہد اور کوششوں کے نتیجے میں 20 اپریل 1924 میں منظور ہوا۔ اس آئین کی روسے مقننہ اور انتظامیہ کے اختیارات قومی اسمبلی کو سونپ دیے گئے ۔ قومی اسمبلی نے قوانین کی تیاری کے اختیارات خود سنبھال لیے جبکہ انتظامی اختیارات صدر مصطفیٰ کمال کو سونپ دیے گئے اور وہ سیاہ و سفید کے مالک بن گئے اور ملک میں سن 1950 تک یک جماعتی نظام پر عمل درآمد کیا جاتا رہا اور 1950 میں کثیرالجماعتی نظام متعارف کروایا گیا۔

27 مئی 1960 میں ترکی میں سول حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد فوج نے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور 1961 میں ملک میں نیا آئین پیش کردیا۔ اس آئین میں مملکتِ ترکی کو ایک قومی، جمہوری اور سیکولر اسٹیٹ کی حیثیت دے دی گئی۔ آئین کے تحت پہلی بار دو ایوانوں پر مشتمل پارلیمانی نظام کو متعارف کروایاگیا۔ اس نئے آئین میں آئینی عدالت ، کونسل آف اسٹیٹ اور ہائی کونسل آف ججز کے نام سے نئے ادارے قائم کیے گئے۔

12 ستمبر 1980 میں جنرل کنعان ایورن نے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور ان کی قیادت میں نیشنل سیکورٹی کونسل اور ایڈوائزری کونسل نےایک اور نیا ملکی آئین تیار کیا اور 7 نومبر 1982 میں ریفرنڈم کرواتے ہوئے اس کی منظوری حاصل کی ۔ اس آئین کے تحت پہلے سے حاصل کئی ایک آزادیوں کو سلب کرلیا گیا جبکہ آئینی عدالت اور کونسل آف دی اسٹیٹ کے نگران اختیارات کو بھی محدود کردیا گیا ۔ ترکی میں اس سے قبل 1961 میں فوج کےتیار کردہ آئین میں فوج ہی کی جانب سے 1982 کے آئین کے مقابلے میں زیادہ آزادیاں دی گئی تھیں۔ ترکی میں پہلی بار برسر اقتدار آنے والی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے1982 کے آئین کی جگہ نیا آئین تیار کرنے کی کوششوں کا آغاز کردیا لیکن حزب اختلاف کی جانب سے رکاوٹوں کی وجہ سے وہ ہمیشہ ناکام رہی۔ تاہم اس نے آئین کی کئی ایک شقوں میں ترامیم کرواتے ہوئے اسے کافی حد تک ایک جمہوری آئین کا روپ دے دیا ہے لیکن وہ اس بار فوجی جنتاکے آئین سے چھٹکارہ حاصل کرتے ہوئے ایک سول آئین تشکیل دینے کا مصمم ارادہ رکھتی ہے۔ ملک میں صدارتی نظام متعارف کروانے کے بعد ملکی آئین میں تبدیلیاں یا نیاآئین اب ناگزیر ہوچکا ہے۔ صدر ایردوان خود بھی گزشتہ سال 21 جولائی 2020 کو اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ ملک میں صدارتی نظام متعارف کرواتے ہوئے حکومتی نظام اور انتظامی امور میں بنیادی طور پر کئی ایک اہم تبدیلیاں رونماہو ئی ہیں لیکن ان تبدیلیوں کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ مزید تبدیلیاں نہ کی جائیں بلکہ ہم ملکی نظام کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے مزید تبدیلیوں کے لیے تیار ہیں اور اس حوالےسے اقدامات اٹھانے سے گریز نہیں کریں گے۔

صدر ایردوان کی تجویز پرحزبِ اختلاف کی جانب سے تاحال کوئی مثبت پیش رفت نہیں دیکھی گئی حالانکہ حزب ِ اختلاف ترکی کی پارلیمنٹ میں اتنی بھی نشستیں نہیں رکھتی کہ وہ اپنی قوتِ بازو پر بھروسہ کرتے ہوئے آئین کی کسی شق میں کوئی ترمیم کرواسکے ۔ صدر ایردوان کی جانب سے نیا آئین تیار کرنے کی تجویز کو حزبِ اختلاف کو فوری طور پر قبول کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آئین کے سول حکومت کی جانب سے تیار کیے جانے کا موقع ضائع نہ ہو ۔

ملک میں نئے آئین سے حزبِ اختلاف کے لیے ملک میں جمہوریت کو مزید فروغ دینے، آزادی تحریر و تقریر ، قوانین کی بالادستی ، مقننہ کے موثر ہونے ، سیاسی جما عتوں کے قوانین اور خاص طور پر پارلیمنٹ میں کسی بھی جماعت کو داخل ہونے کے لیے دس فیصد ووٹ حاصل کرنے کی شرط میں ترامیم اور دیگر آزادیوں کے بارے میں اپنی بات منوانے کا سنہری موقع میسر آجائے گا لیکن حزب اختلاف نے ابھی تک اپنے دروازوں پر مقفل لگا رکھا ہےحا لانکہ اس سے قبل حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف دونوں ہی آئین کی 59 شقوں میں ترا میم کرنے کے بارے میں مطابقت کا اعلان کرچکی ہیں ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں کہیں بھی سو فیصد اتفاق رائےکے ساتھ آئین تیار نہیں کیا جاتا بلکہ دو تہائی یا پھر اس سے لگ بھگ بھاری اکثریت ہی سے آئین تشکیل دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔

موجودہ حالات میں حزبِ اختلاف ترکی میں ایک سول آئین تشکیل دینے میں ایردوان کا ساتھ اس لیے نہیں دینا چاہتی کہ اس سے ایردوان کا نام ہمیشہ کے لیے تاریخ میں سول آئین تیار کرنے کی وجہ سے رقم ہوجائے گا ۔ اس لیے وہ ملک کی موجودہ اقتصادی صورتِ حال اور اس کے منفی اثرات سے فائدہ اٹھاتے ہوئےقبل از وقت انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہے تاکہ صدر ایردوان کو انتخابات میں شکست دیتے ہوئے ملک میں صدارتی نظام سے چھٹکارہ حاصل کرتے ہوئے پارلیمانی نظام کو بحال کیا جاسکے اور اس کے بعد ہی نیا آئین تشکیل دینے کی جانب توجہ مبذول کی جاسکے حالانکہ ترکی میں سول آئین تیار ہونے سے حزبِ اختلاف اور حزبِ اقتدار دونوں ہی کا نام تاریخ میں رقم ہوگا اور سب سے بڑھ کر ترکی کے سیاسی ماتھے پر فوج کی جانب سےدئیے گئے آئین کی صورت جو کلنک کا ٹیکہ لگا ہوا ہے اس کو ہٹانے میں مدد ملے گی اور ترکی کا نام بھی سول آئین تیار کرنے والے جمہوری ممالک کی صف میں شامل ہو جائے گا۔

تازہ ترین