• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
”میرے اعزاز میں رکھے جانے والے استقبالیے اور پُرتکلف ضیافت کی رقم پاکستانی عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ کی جائے“۔ یہ چینی وزیراعظم کے الفاظ ہیں جو انہوں نے اپنی پاکستان آمد کے موقع پر کہے۔ قارئین!برصغیر پاک وہند میں انگریزوں کی غلامی میں دو سو سال تک رہنے اور اس کے بعد بھی ان کی جنبش آبرو اپنی پالیسیاں مرتب کرنے والی حکومتوں کی ماتحت عوام الناس کا اب عمومی یہ ذہن بن چکا ہے کہ دین اور دنیا الگ الگ چیزیں ہیں۔ یہ فکرونظریہ خوب پروان چڑھ رہا ہے کہ مذہب کا اجتماعی معاملات، معیشت وتجارت، سیاست وحکومت سے کوئی تعلق نہیں۔ مذہب صرف شادی بیاہ، نکاح، طلاق اور وفات کی چند رسومات ادا کرنے کا نام ہے۔ اس کا دائرہ محض عبادت گاہوں کی چار دیواری تک محدود ہے جبکہ ہماری باقی زندگی میں مذہب کی مداخلت ایک غیرفطری اور نقصان دہ عمل ہے جو ہماری ترقی میں حائل رکاوٹوں میں سے ایک ہے۔ حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے، بلکہ اسلام کے ایسے زریں اصول ہیں جن پر جو بھی قوم یا ملک عمل کرے گا وہ ترقی کی معراج پر پہنچے گا۔ ایک مرتبہ علامہ اقبال مسولینی سے ملے تو دورانِ گفتگو علامہ نے حضور کی اس پالیسی کا ذکر کیا کہ شہر کی آبادی میں غیر ضروری اضافے کے بجائے دوسرے شہر آباد کئے جائیں۔ مسولینی یہ سن کر مارے خوشی کے اُچھل پڑا۔ کہنے لگا ”شہری آبادی کی منصوبہ بندی کا اس سے بہتر حل دنیا میں موجود نہیں ہے“۔آج سے چودہ سو سال پہلے آپ ﷺنے حکم دیا تھا مدینہ کی گلیاں کشادہ رکھو۔ گلیوں کو گھروں کی وجہ سے تنگ نہ کرو۔ ہر گلی اتنی کشادہ ہو کہ دو لدے ہوئے اونٹ آسانی سے گزرسکیں“۔ آج دنیا 14 سو سال بعد اس حکم پر عمل کررہی ہے۔ شہروں میں تنگ گلیوں کو کشادہ کیا جارہا ہے۔
آپ نے حکم دیا تھا مدینہ کے بالکل درمیان میں مرکزی مارکیٹ قائم کی جائے۔ اسے ”سوقِ مدینہ“ کا نام دیا گیا۔ آج کی تہذیب یافتہ دنیا کہتی ہے جس شہر کے درمیان مارکیٹ نہ ہو وہ ترقی نہیں کرسکتا۔ آپ نے کہا تھا ”یہ تمہاری مارکیٹ ہے۔ اس میں ٹیکس نہ لگاؤ“۔ آج دنیا اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ مارکیٹ کو ٹیکس فری ہونا چاہئے۔ دنیا بھر میں ڈیوٹی فری مارکیٹ کا رجحان فروغ پارہا ہے۔ آپ نے ذخیرہ اندوزی سے منع کیا۔ آج دنیا اس حکم پر عمل کرتی تو خوراک کا عالمی بحران کبھی پیدا نہ ہوتا۔ آپ نے فرمایا تھا سود اور سٹے سے نفع نہیں نقصان ہوتا ہے، آج عالمی مالیاتی بحران نے اس کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ کل کے ارب پتی آج کشکول گدائی لئے پھررہے ہیں۔ صحابہ کرام کو منع کیا کہ درختوں کو نہ کاٹو۔ کوئی علاقہ فتح ہو تو بھی درختوں کو آگ نہ لگاؤ۔ آج ماحولیاتی آلودگی دنیا کا دوسرا بڑا مسئلہ ہے۔ عالمی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ گلیشئر پگھل رہے ہیں۔ گرمی بڑھ رہی ہے۔ یہ سب کچھ درختوں اور جنگلات کی کمی کی وجہ سے ہورہا ہے۔ ایک شخص نے مدینہ کے بازار میں بھٹی لگالی۔ حضرت عمر نے اس سے کہا تم بازار کو بند کرنا چاہتے ہو؟ شہر سے باہر چلے جاؤ۔ آج دنیا بھر میں انڈسٹریل علاقے شہروں سے باہر قائم کئے جارہے ہیں۔رسول اللہ نے مدینہ کے باہر ”محی النقیع“ نامی سیرگاہ بنوائی۔ وہاں پیڑ پودے اس قدر لگوائے کہ وہ تفریح گاہ بن گئی۔ رسول اللہ خود بھی وہاں آرام کے لئے تشریف لے جاتے۔ آج صدیوں بعد ترقی یافتہ شہروں میں پارک قائم کئے جارہے ہیں۔ شہریوں کی تفریح کے لئے ایسی تفریح گاہوں کو ضروری سمجھا جارہا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے مختلف قبائل کو جمع کرکے ”میثاقِ مدینہ“ تیار کیا۔ 52 دفعات پر مشتمل یہ معاہدہ دراصل مدینہ کی شہری حکومت کا دستور العمل تھا۔ اس معاہدے نے جہاں شہر کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا، وہیں خانہ جنگیوں کو ختم کرکے مضبوط قوم بنادیا۔
مدینہ میں مسجد نبوی کے صحن میں اسپتال بنایا گیا تاکہ مریضوں کو جلد اور مفت علاج مہیا ہو۔ آج ترقی یافتہ ممالک میں علاج حکومت کی ذمہ داری سمجھا جاتا ہے۔ مسجد نبوی کو مرکزی سیکرٹریٹ کا درجہ حاصل تھا۔ مدینہ بھر کی تمام گلیاں مسجد نبوی تک براہِ راست پہنچتی تھیں تاکہ کسی حاجت مند کو پہنچنے میں دشواری نہ ہو۔ آج ریاست کے سربراہ اعلیٰ کی رہائش گاہ میں اس بات کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت دیکھیں اور دنیا میں نام کمانے والے حکمرانوں کی زندگیوں کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے دنیا میں غلغلہ ہے مارٹن لوتھر کی انقلابی جدوجہد کا۔ غریبوں، مظلوموں اور امریکہ کے سیاہ فام باشندوں کو اس نے جینے کا شعور دیا۔ اس نے کالے انسانوں کی غلامی ختم ہونے کا خواب دیکھا اور پھر اس خواب کو پورا کردکھایا، لیکن آپ کی سیرت کو دیکھیں۔ آپ نے جاہل، خونخوار اور وحشی قوم کو تہذیب، اخلاق اور تابندہ روایات کا درس دیا۔ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے سے لوگ چند سالوں میں قیصر وکسریٰ کے حکمران بن گئے۔ دنیا کی وہ ترقی یافتہ حکومتیں ان کے زیرنگیں آگئیں۔ کل کے غلام چند سالوں میں ہی حکمران بن بیٹھے۔ لوگ متاثر ہیں نیلسن منڈیلا کی طویل اور صبر آزما جدوجہد سے۔ جیل کی سلاخوں کے پیچھے برسوں گزارنے کے باوجود وہ ایک قدم پیچھے نہیں ہٹا، مگر وہ اس کے موقف میں لچک نہ آئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شعب ابی طالب میں قید کردیا گیا۔ کھانا بند کردیا گیا۔ عربوں کی ساری دولت قدموں میں ڈھیر کرنے کا لالچ دیا گیا مگر آپ نے ایک لمحے کو بھی ان پیشکشوں پر غور نہیں کیا۔
آج لینن اور کارل مارکس کی معاشی حکمت عملیوں کا چرچا ہے۔ شہرہ ہے ان کی غریب نوازی کا مگر یہ ”غریب نواز“ خود تو محلوں میں رہائش پذیر رہے مگر آپ اس بادہ نشین کا حال دیکھئے جسے سونے کے پہاڑ پیش کئے گئے مگر اس نے کہا میں تو ایک دن کھانا کھاکر شکر اور دوسرے دن بھوکا رہ کر صبر کرنا چاہتا ہوں۔ وہ کچے مکان اور جھونپڑے میں سویا، اس کا بستر کھجور کی چھابی سے بنا ہوا تھا۔ آپ کا طرزِ زندگی انتہائی سادہ تھا۔ بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر بندھے ہوئے تھے لیکن گھر میں 9 تلواریں لٹک رہی تھیں۔ اسرائیلی وزیراعظم گولڈہ مائرہ نے لکھا ہے کہ جس وقت اسرائیل عرب جنگ ہورہی تھی، اس وقت مجھے مسلمانوں کے پیغمبر کی زندگی کا وہ پہلو یاد آگیا جب چراغ میں تیل نہیں تھا مگر دیوار پر 9 تلواریں لٹک رہی تھیں۔ دنیا کی تمام بڑی اور اہم شخصیات کا بائیو ڈیٹا نکال کر دیکھ لیں یہ سب سادگی پسند تھے۔ دنیا کے پانچ ارب پتی پُرتعیش کے بجائے سادہ زندگی گزار رہے ہیں۔
کیسی عجوبہ روزگار بات ہے امریکی بازار حصص کے سب سے بڑے بروکر وارین یافٹ ڈرائیور تک رکھنے کو روادار نہیں سمجھتے۔ لبنانی ارب پتی کارلوس سلیم ہوائی سفر کو پیسے کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ چارک فینی جیسے امیر کبیر اپنی گاڑی میں سفر ہی نہیں کرتے اور یہ سب عام زندگی بسر کرتے ہیں۔ وارین یافٹ ایک عام اور بوسیدہ مکان میں رہتے ہیں حالانکہ وہ ایک ارب 50 کروڑ ڈالر کے مالک ہیں۔ سوئیڈن کے ارب پتی اور ایکتا فرم کے مالک انکیفر کامریڈ کا کہنا ہے ان کی کمپنی کی مصنوعات غریب لوگ خریدتے ہیں، اس لئے وہ غربت کی زندگی گزارتے ہیں۔ ایک امریکی ارب پتی چاک وین کہتے ہیں کہ وہ فضول خرچی نہیں کرتے۔ حضرت عثمان امیر ترین صحابی تھے، انہوں نے جس سادگی اور غربا کی مدد کرتے ہوئے زندگی گزاردی، آج دنیا کے پانچ غیرمسلم ارب پتی انہی کی سنت پر عمل پیرا ہیں۔ وارن بفٹ دنیا کا دوسرا مالدار ترین شخص ہونے کے باوجود ایک چھوٹے سے پرانے گھر میں ہی رہتا ہے۔ جب اس سے پوچھا جاتا ہے بڑا مکان کیوں نہیں لیتے تو اس کا جواب بڑا دلچسپ ہوتا ہے ”کیا دوسرے لوگوں کے پاس ایسا ذاتی مکان بھی ہے۔ جب دوسرے کے پاس چھوٹا مکان بھی نہیں ہے تو پھر میں بڑے کی خواہش کیوں کروں؟“ یہ سوچ تو ہمارے مسلم ذہن کی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے ” وارن بفٹ“ دیوبند کے نامور عالم مولانا سید اصغر کی نقل کررہا ہے جنہوں نے زندگی بھر ہر سال مکان کی مرمت کا بوجھ تو اُٹھایا لیکن اسے پکا نہ کرایا کہ علاقے کے لوگوں کو مکان پکا کرانے کی استطاعت نہ تھی اور مولانا کو سب کا مکان بنانے کی قدرت نہ تھی۔ افسوس !ہمارے گھر کی سوچ سے غیر تو متاثر ہیں لیکن خود ”ہم“ اس سے عاری نظر آتے ہیں۔ ہمارے حکمران دولت اور وہ بھی لوٹی ہوئی کے انبار رکھتے ہیں مگر ان کو خدا یاد ہے نہ قیامت۔ اگر ہمارے حکمران اشرافیہ اپنی دولت واپس لاکر اور اللے تللے چھوڑکر غریبوں کی بستیوں میں رہنے لگیں تو یہ ملک جو آج داؤ پر لگا ہوا ہے، جنت نظیر بن جائے۔ اسی بات کی تلقین چینی وزیراعظم نے کی ہے بلکہ پُرتکلف استقبالیے اور ضیافت سے انکار کرکے بتایا ہے۔
تازہ ترین