• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت اپوزیشن کی سنے گی تو اسے پتا چلے گا ہم کیا چاہتے ہیں،شاہ محمود

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘میں گفتگو کرتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا کہ  اگر حکومت اپوزیشن کا نقطہ نظر سنے گی تو اسے پتا چلے گا کہ ہم کیا چاہتے ہیںحکومت نے ٹی او آرز بناتے ہوئے اپوزیشن سے مشاورت نہیں کی،پاک سر زمین پارٹی کے رہنما مصطفٰی کمال نے کہا کہ اتوار کا جلسہ متاثر کن تھا ،پاکستان اور پاکستانیوں سے جڑ کر رہنے میں مہاجروں کا فائدہ ہے، سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری نےکہا کہ طالبان ہمارے زیراثر نہیں ہیں، افغان حکومت اور افغان طالبان کو مل کر مفاہمت کی راہ ڈھونڈنی ہوگی۔ میزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے جلسے سے خطاب کے بعد پیر کو اپوزیشن اور زیادہ متحرک نظر آئی،اتوار جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا تھا کہ ہم سندھ سے آغاز کرکے وہاں ریلیاں نکالیں گے،اس کے بعد اتوار کے دن لاہور میں شاہ محمود قریشی نےریلیوں کی قیادت کریں گے ،پیر کو شاہ محمود قریشی کی خورشید شاہ سے ملاقات ہوئی اور اس ملاقات کے بعد لائحہ عمل کا اعلان کیا گیاجبکہ سندھ حکومت، اس کی کرپشن کے خلاف، زرداری صاحب کے خلاف اور خورشید شاہ کے خلاف خود عمران خان بہت ساری باتیں کرچکے ہیں لیکن اب پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر پی ٹی آئی کس طرح تحریک چلائے گی ، 2مئی کو جو اپوزیشن کا اجلاس بلایا گیا ہے اس میں فیصلے کیا ہونگے ٹی او آر ز میں پی ٹی آئی کیا اضافہ چاہتی ہے ؟عمران خان نے کہا تھا کہ سب سے پہلے میرا اور شوکت خانم کا احتساب کرلیں لیکن پہلے چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن بنائیں ۔ شاہزیب خانزاہ نے شاہ محمود قریشی سے سوال کیا کہ عمران خان نے اتوار کو کہا کہ میاں صاحب آپ کو امپائر ساتھ ملانے نہیں دینگے اور آپ کو احتساب سے نہیں بھاگنے دیں گے ، اس دفعہ تو امپائر آپ کا تجویز کیا ہوا ہے ، آپ نے کہا کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں ہواور میاں صاحب نے خط لکھ دیا تو امپائر بھی آپ کی مرضی کا اور اسے اختیار بھی دیا گیا ہے ، کسی کو بھی بلالیں اور کسی بھی طریقے سے تحقیقات کرلیں ، کسی بھی اکاؤنٹنٹ فرم کو بلا لیں ،تو امپائر بھی آپ کی مرضی کا ہے ، اسے اختیار بھی دیا گیا ہے خان صاحب پھر بھی نہیں مان رہے تو پھر خان صاحب چاہتے کیا ہیں ؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ایسے ٹی او آرز بنیں جو سب کو قابل قبول ہوں،حکومت نے ٹی او آرز بناتے ہوئے اپوزیشن سے مشاورت نہیں کی اور حکومت نے 1956ء کے ایکٹ کے تحت جو کمیشن بنایا ہے اس کے اختیارات محدود ہونگے ، جب دھاندلی کے معاملے پر کمیشن بنایا گیا تھا تحریک انصاف نے 1956ء کے انکوائری ایکٹ کے تحت کمیشن کو قبول نہیں کیا تھاکیونکہ اس کے اختیارات محدود تھے اور پھر ایک خصوصی قانون کے ذریعے قانون سازی کی گئی تھی ، اپوزیشن یہ سمجھتی ہے کہ ٹی او آرز پر ہم سے مشاورت کی جائے اور ایک ایسا کمیشن بنایا جائے جو باختیار ہو۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اگر حکومت اپوزیشن کا نقطہ نظر سنے گی تو اسے پتا چلے گا کہ ہم کیا چاہتے ہیں،حکومت ہمارے ساتھ بیٹھ کر بات کرنے سے گھبرا رہی ہے ، جب ہم انہیں کہہ رہے ہیں کہ ہم مل بیٹھ کر کوئی راہ نکال لیں گے لیکن ہمارا نقطہ نظر سن تو لیں ،ہمارے کچھ اعتراض ہیں اگر اعتراضات نہیں ہوتے تو ہم رکاوٹ کیوں بنتے،تحریک انصاف کا اپنا ایک نقطہ نظر ہے لیکن ہم نے جو بات کرنی ہے وہ اپوزیشن نے مشترکہ طور پر کرنی ہے،اس لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اپوزیشن دو مئی کو آپس میں مشاورت کرکے ٹی او آرزطے کریں گے اور پھر حکومت سے بات کرنے کو تیار ہونگے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے مجوزہ کمیشن اپوزیشن سے مشاورت کے بعد مسترد کیا ہے ،ہمارا اپوزیشن کی جماعتوں سے رابطہ ہوا تھا اور تمام اپوزیشن جماعتوں نے کہا تھا کہ جو ٹی او آرز بنائے گئے ہیں وہ نامناسب ہیں ، ہم آج بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ بلاامتیاز احتساب ہو ، چونکہ وزیر اعظم اور ان کے خاندان کانام پاناما پیپرز میں آیا ہے اس لیے ابتدا ء ان سے کی جائے ، ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ اوروں کو معاف کردیا جائے ، وزیر اعظم نواز شریف پر الزامات ہم نے نہیں لگائے بلکہ یہ جرنلسٹ برادری نے ، آئی سی آئی جے نے ایک سال کی تحقیق کے بعد اس کو افشاں کیا ہے ، ہم نے یہ معاملہ وہاں سے اُٹھایا ہے ، قرضے معاف کروانے والوں کا احتساب ہونا چاہئے ہم اس میں رکاوٹ نہیں بنیں گے لیکن سب سے پہلے تحقیقات وزیر اعظم سے شروع ہونی چاہئے ، انکوائری کمیشن کے لیے کوئی ٹائم فریم مقرر نہیں کیا گیا ، کمیشن پر حدود و قیود مقرر نہیں کیا گیا ، ابھی ہمارے علم میں نہیں ہے کہ جب چیف جسٹس وطن واپس آئیں گے تو وہ کیا ذہن بنائیں گے ، ہر سیاسی جماعت میں ہمہ قسم کے لوگ ہوتے ہیں اگر انہوں نے بدعنوانی کی ہے تو ان کا احتساب ہونا چاہئے چاہے ان کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو ۔  میزبان شاہزیب خانزادہ پاک سرزمین پارٹی کے جلسے کے بارے میں تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ مصطفٰی کمال اور ان کے ساتھیوں نے پہلا عوامی شو کرہی دیا ، 24اپریل سے پہلے لیڈرز جمع کیے اور23مارچ کو پارٹی کے نام کا اعلان کیااور بالاآ خر31 دن بعد باغ جناح میں عوامی پنڈال سجا دیا ، مصطفٰی کمال نے اپنی پریس کانفرنسوں میں تو متحدہ قائد کے خلاف انتہائی سخت الفاظ استمال کیے لیکن اپنے پہلے جلسے میں وہ متحدہ قائد کے حوالے سے محتاط نظر آئے ۔شاہزیب خانزادہ نے مصطفٰی کمال سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ دو طریقے ہیں اس جلسے کو دیکھنے کے ، ایک 31دن پرانی پارٹی نے یہ جلسہ کیا تھا ، اس حساب سے ظاہر ہے کہ یہ اچھا شو تھا ، مگر دعوؤں کے حساب سے دیکھا جائے کہ انیس قائم خانی کہتے رہے کہ بہت بڑ اجلسہ ہوگا ، بہت بڑا مجمع ہوگا ، کیا آپ مطمئن ہیں کیونکہ جلسے میں عوام کی تعداد اس طرح سے نظر نہیں آئی جس طریقے سے دعوے کیے گئے تھے ۔ مصطفٰی کمال نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اتوار کا جلسہ بہت متاثر کن تھا ، اپنے اپنے دیکھنے کا طریقہ کار ہوتا ہے ، بڑی تعداد میں لوگ وہاں موجود تھے ، ہم نےجلسے کے ذریعے تمام پاکستانیوں کو ایک خوشگوار سرپرائز دیا ہے ، تین مارچ کو ہم نے وقت کے فرعونوں کے خلاف آواز لگائی ، اس کے بعدہزاروں لوگ جڑے اور اس کے بعد اتوار کو لاکھوں لوگوں نے ہماری آواز پر لبیک کہہ دیا ہے ، کراچی کے لوگوں نے بہت بہادری کا مظاہرہ کیا ہے ، عورتیں ، بچے بڑی تعداد میں آئے،جلسہ گاہ کھچا کھچ بھری ہوا تھا۔مصطفٰی کمال نے کہا کہ ہم نے جلسہ الطاف حسین کے خلاف محض تنقید کرنے کے لیے نہیں کیا تھا ، میں نے پہلی پریس کانفرنس میں الطاف حسین سے متعلق جو باتیں کی ہیں اگر مجھ سے سوالات نہیں کیے جاتے تو میں ان کے اوپر بات نہیں کرتا ، ایک گھنٹے کی تقریر میں پوری پارٹی کا منشور نہیں بیان کیا جاسکتا، میں نے جمہوریت کو رد نہیں کیا ہم جمہوریت کو صرف اسلام آباد کے ایوانوں میں نہیں چاہتے ہم چاہتے ہیں کہ جمہوریت تمام پاکستانیوں کے گھر کے باہر نظر آئے ، کسی بھی گلی کے اختیارات اس گلی والوں کو ملنا چاہئے، مقامی حکومتوں کا نظام جمہوریت کی پہلی سیڑھی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم الیکشن سے پہلے اپنی تنظیم کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں اوریہی تنظیم پاک سرزمین پارٹی کو اگلے انتخابات میں لے کر جائے گی ۔ مصطفٰی کمال نے کہا کہ مہاجروں کا فائدہ اسی میں ہے کہ وہ پاکستان اور پاکستانیوں سے جڑ کر رہیں، یہی مہاجر پہلے جرنیل ، چیف جسٹس، وکیل ، بزنس مین ، بیوروکریٹ اور ڈاکٹر عبدلقدیر خان بن رہا تھا۔متحدہ قومی مومنٹ کی طرف انہوں نے اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ انہوں نے مہاجروں کو دنیا اور پاکستان سے کاٹ دیا ہے اور سب کو ان کا دشمن بنادیا ہے ، میں اس بات کی تبلیغ کرتا رہوں گا کہ مہاجر دوسرے پاکستانیوں سے جڑے رہیں ،میں تمام پاکستانیوں سے بھی یہی کہتا ہوں کہ وہ اردو بولنے والوں کے زخموں پر مرہم رکھیں ، ان کو پاکستانی سمجھیں ، مہاجر نہ ’را‘ کے ایجنٹ ہیں اور نہ بد تہذیب لوگ ہیں ، یہ محب وطن اور تہذیب یافتہ لوگ ہیں ۔
تازہ ترین