دوسری جنگ عظیم نے دنیا بھر میں کئی تبدیلیاں رونما کیں، جن میں سے ایک بہت بڑی تبدیلی، برصغیر میں آزادی کا سورج طلوع ہونا تھا۔ اس تحریک آزادی کے نتیجے میں پاکستان بطور مملکت معرض ِ وجود میں آیا۔ انگریزوں کو اس خطے سے جانا پڑا، لیکن وہ جب یہاں سے چلے گئے، تو اپنی یادیں رقم کیں، خاص طور پر، اُن ہندوستانی نژاد برطانوی(اینگلو انڈین) شخصیات نے اپنے اچھے دنوں کو یادکیا۔ کسی نے سوانح عمری لکھی، تو کسی نے ناول کی صورت میں اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ اسی حوالے سے، آج کے منتخب ناول نگار کا نام ’’جان ماسٹرز‘‘ ہے۔
’’جان ماسٹرز‘‘ کی پیدائش کلکتہ، غیر منقسم ہندوستان کی ہے۔ وہ برطانوی فوج میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے، اسٹاف کالج، کوئٹہ میں زیر تعلیم بھی رہے۔ بطور ناول نگار بھی مقبول ہوئے۔ ہندوستان سے جانے کے بعد خود کو قلم کار کے طور پر فعال کیا، بالخصوص ناول نگاری کی طرف متوجہ ہوئے۔ انہوں نے اپنے پورے ادبی کیرئیر میں ہندوستانی طرزِ معاشرت کو ہی اپنا موضوع بنایا۔ 1952 سے لے کر 1953 تک’’انڈین ٹریلوجی‘‘ کے عنوان سے تین ناولوں کی ایک سیریز لکھی، پھر اسی انداز میں ایک اور سیریز’’لیس آف ایدن‘‘کے تحت تین کتابیں لکھیں۔ مختلف موضوعات پر 7 نان فکشن کتابیں، جبکہ 15 انفرادی ناول لکھے، جن میں سے ان کا سب سے مشہور ناول’’بھوانی جنکشن‘‘ ہے، اس کی اشاعت 1954 میں ہوئی تھی۔ ان کی آخری کتاب’’ہائی کمانڈ‘‘ 1984 میں، ان کے انتقال کے ایک سال بعد منظر عام پر آئی۔
’’جان ماسٹرز‘‘ کے ناول’’بھوانی جنکشن‘‘ میں چالیس کی دہائی کے آخری برسوں کا ہندوستان دکھایا گیا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کا پس منظر ہے، چار مرکزی کردار دکھائے گئے ہیں، جن میں تین انگریز ہیں۔ مرکزی کردار ایک ایسی انگریز عورت کا ہے، جس کی ماں ہندوستانی اور باپ انگریز ہے، وہ دوسری جنگ عظیم کے لیے انگریزی فوج میں بھرتی ہوتی ہے، پھر اس کی تعیناتی ہندوستان میں ہو جاتی ہے۔ یہاں وہ شادی کا فیصلہ کرنے کے لیے دوراہے پر کھڑی ہوتی ہے۔ اس صورتحال میں ایک فرد کی زندگی میں خطے کی فضاکوچابکدستی سے ناول نگار نے بیان کیا ہے، کہیں کہیں اس کی اپنی زندگی کی پرچھائیاں بھی کہانی میں متحرک دکھائی دیتی ہیں۔
ناول میں خاتون کے مرکزی کردار کے لیے، ایک طرف اس کا ہم نسل انگریز فوجی افسر ہے، جس سے وہ شادی کرنا چاہتی ہے، دوسری طرف ایک انگریزفوجی، جو کم عمر ہے، وہ اس سے یک طرفہ محبت کرتا ہے، جبکہ تیسری طرف ایک ترقی پسند ذہن رکھنے والاسکھ کلرک ہے، جس کی محبت میں یہ خاتون حادثاتی طور پر مبتلاہو جاتی ہے۔ ریلوے جنکشن کے اردگرد کہانی کے تانے بانے بنے ہیں، آزادی کے متوالے انقلابیوں کی جدوجہد دکھائی گئی ہے۔
یہ جنکشن ایک علامت کے طور پر استعمال ہوا ہے، جو انگریزوں کی طاقت، نقل و حرکت، رسد کی آمد سمیت کئی پہلوئوں کی طرف اشارہ کرتا ہے، اسی تناظر میں کہانی آگے بڑھ کر اپنے اختتام کو پہنچتی ہے۔ اس ناول کا اردو زبان میں ترجمہ بھی ہوا تھا، جس کو’’سید قاسم محمود‘‘ نے اردو قالب میں ڈھالا تھا۔ یہ ناول دنیا کی متعدد زبانوں میں شائع ہوچکا ہے۔
’’بھوانی جنکشن‘‘ کے نام سے بننے والی فلم 1956 میں نمائش کے لیے دنیا بھر میں پیش ہوئی۔ تقریباً 20 ممالک میں، وہاں کی مقامی زبانوں کے ساتھ ڈب کرکے اور سب ٹائٹلز کے ساتھ پیش کی گئی، ان ممالک میں پاکستان کے علاوہ، امریکا، جاپان، برطانیہ ، فرانس، جرمنی، ترکی، اسپین، ڈنمارک، یونان، اٹلی، سویڈن، جنوبی افریقا، کینیڈا، آسڑیلیا، برازیل ہیں۔
پاکستان میں لاہور شہر اور ریلوے اسٹیشن کے آس پاس اس فلم کی عکس بندی کی گئی۔ اس فلم کی کہانی کا تعلق ہندوستانی ریاست جھانسی سے تھا، جس کو ناول نگارنے’’بھوانی‘‘ کا نام دیا۔ فلم میں کہانی کا اختتام کچھ بدل دیا گیا۔ اس فلم کا اسکرین پلے’’سونیا لیوین‘‘اور’’ایوان موفات‘‘نے لکھا تھا۔
ریلوے جنکشن کی زندگی کو فلمایا گیا، جس کے لیے کئی ہزار لوگوں کو ایکسٹراز کے طور پر لیا گیا۔ ہالی ووڈ کی اس مایہ ناز فلم کو امریکی فلم ساز، ہندوستان میں حقیقی مقام پر فلماناچاہتے تھے، لیکن ہندوستانی حکومت نے تعاون نہ کیا، پھر پاکستان میں اس فلم کو عکس بند کرنے کا فیصلہ ہوا، جس پر حکومت پاکستان نے ان کو خوش آمدید کہا۔
اس طرح فلم کے ہدایت کار’’جارج کیوکر‘‘ پہلے لاہور آئے اور فلم کے لیے مقامات کا انتخاب کیا، پھر اپنی پوری ٹیم کے ہمراہ لاہور آئے اور فلم بنائی۔ دو مہینے تک فلم کی لاہور میں عکس بند ہوتی رہی، اس کے مرکزی کرداروں میں شہرہ آفاق اداکارہ ’’ایواگاڈنر‘‘ اور’’اسٹیورٹ گرینجر‘‘ شامل تھے۔ پاکستانی فلمی صنعت اس فلم کی یاد سے کئی برسوں تک مہکتی رہی، لاہور میں کئی لوگ ’’ایواگاڈنر‘‘کے عشق میں مبتلا رہے اور اس سے ملاقات کی کہانیاں سناتے رہے۔
اس فلم کے ذریعے پاکستان کو بھی کئی عمدہ فلم ساز اور اداکار ملے، جن میں معروف اداکارہ نیلوبیگم شامل تھیں، جنہوں نے اس فلم میں مختصر کردار نبھایا تھا، جبکہ فلموں کے مقبول اداکار’’ساقی‘‘ اور ان کے ایک قریبی دوست اور معروف رقاص’’ملنگ چارلی‘‘ بھی فلم کے اداکاروں میں شامل تھے۔ ان کے علاوہ ایک اور اداکارہ’’زہرہ ارشد‘‘ بھی فلم کی کاسٹ میں شامل تھیں۔ فلم کے ہدایت کاری کے شعبے تقریباً چالیس افراد بھرتی کیے گئے،جن میں قدیر غوری اور فرید احمد سرفہرست تھے۔
انہوں نے اس فلم کے امریکی ہدایت کارکے ساتھ بطور نائب کام کیا،مقامی طور پر کیے جانے والے تمام کام اپنے ذمے لیے، جن میں ہزاروں ایکسٹراز کو بھرتی کرنا شامل تھا،جبکہ ان فنکاروں کو بھرتی کرنے کے شعبے میں انگریز سربراہ’’آئیرینی ہاورڈ‘‘ کے ساتھ ساتھ پاکستانی نائب عبدالحق رانا نے بھی اپنی خدمات فراہم کیں۔ اس فلم کا تفصیلی احوال پاکستان کے معروف ادیب’’مستنصر حسین تارڑ‘‘نے اپنے ایک نیم سوانحی ناول’’راکھ‘‘ میں کیا ہے، جبکہ فلمی صحافت کے مشہور صحافی علی سفیان آفاقی نے بھی اس فلم کا منظرنامہ بہت تفصیل سے بیان کیا، جس سے اس فلم کی کئی باریکیوں کا پتہ چلتا ہے۔
’’جان ماسٹرز‘‘ کا یہ ناول اس بات کاثبوت ہے، جو انگریز غیرمنقسم ہندوستان میں پیدا ہوئے یا طویل عرصہ رہے، انہیں ہندوستان یاد آتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں پیدا ہونے والے اس ناول نگار نے اپنی پوری زندگی ہندوستان کو یادکرتے ہوئے گزاری۔ اس پر بننے والی فلم بتاتی ہے کہ ہماراخطہ بھی عالمی سینما کا مرکز بن سکتا تھا۔ اس فلم سے دنیا میں پاکستان کا مثبت تعارف ہوا۔