سپریم کورٹ آف پاکستان میں سینیٹ کے انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کے دوران الیکشن کمیشن نے جواب جمع کرا دیا جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کا کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ سینیٹ الیکشن پر آرٹیکل 226 کا اطلاق ہوتا ہے، خفیہ رائے شماری میں ووٹ قابلِ شناخت نہیں ہو تا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ایسا نہ تو آئین و قانون میں لکھا ہے، نہ ہی عدالتی فیصلوں میں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں سینیٹ کے انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔
چیف الیکشن کمشنر سمیت الیکشن کمیشن ممبران عدالت میں پیش ہوئے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالتِ عظمیٰ کو بتایا کہ الیکشن کمیشن نے تفصیلی جواب جمع کرا دیا ہے، جواب میں کرپٹ پریکٹس روکنے کیلئے خصوصی اقدامات کا بتایا ہے۔
الیکشن کمیشن نے عدالتی احکامات پر جو جواب تیار کیا ہے اس میں کہا ہے کہ سینیٹ الیکشن پر آرٹیکل 226 کا اطلاق ہوتا ہے، آرٹیکل 218 کے تحت شفاف الیکشن کرانا ہماری ذمے داری ہے، آرٹیکل 218 کی تشریح سے 226 کو ڈی فیوز نہیں کیا جا سکتا، آرٹیکل 226 کی سیکریسی کو محدود نہیں کیا جا سکتا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالتِ عظمیٰ کو بتایا کہ آن لائن شکایت سننے کا سسٹم شروع کر رکھا ہے، الیکشن کمیشن کو انتخابات سے متعلق جو شکایت موصول ہو اس پر فوری کارروائی ہوتی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے سوالات کا کوئی جواب نہیں دیا، گزشتہ روز جو عدالت نے پوچھا تھا اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ سینیٹ انتخابات آرٹیکل 226 کے تحت ہوتے ہیں، خفیہ ووٹنگ میں ووٹ کی تصاویر بنانا جرم ہے، خفیہ رائے شماری میں ووٹ قابلِ شناخت نہیں ہوتا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ایسا نہ تو آئین و قانون میں لکھا ہے اور نہ ہی ہمارے فیصلوں میں، الیکٹرانک ووٹنگ بھی قابلِ شناخت ہے، سائبر کرائم والوں سے پوچھ لیں، ہر میسج ٹریس ایبل ہے۔
جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ سیکریسی کا معاملہ الیکشن ایکٹ میں ہے، سوال ہے کہ کس حد تک سیکریسی ہو گی؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن جواب دے کہ نمائندگی کے تناسب کا مطلب اور اس کی ضرورت کیا ہے؟ قومی اسمبلی کے انتخابات کیلئے فری ووٹ کی اصطلاح استعمال ہوئی، سینیٹ کے انتخابات کیلئے فری ووٹ کی اصطلاح کو شعوری طور پر ہٹایا گیا؟
الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے ویجیلنس کمیٹی قائم کی ہے، مختلف شعبوں سے افسران ویجیلنس کمیٹی میں شامل ہوں گے، ہر امیدوار سے ووٹوں کی خرید و فروخت نہ کرنے کا بیانِ حلفی لیا جائے گا، ووٹ خفیہ رکھنے کا مطلب ہے کہ ہمیشہ خفیہ ہی رہیں گے، کاسٹ کیئے گئے ووٹ کبھی کسی کو دکھائے نہیں جا سکتے، اوپن بیلٹ سےانتخابات کرانے کیلئے آئین کے آرٹیکل 226 میں ترمیم کرنا ہوگی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 226 صرف ووٹ ڈالنے کو خفیہ رکھنے کی بات کرتا ہے، اگر ایک جماعت کے صوبے میں ممبران کم، جبکہ سینیٹ میں زیادہ تناسب ہو تو سسٹم تحلیل ہو سکتا ہے، ممبرانِ اسمبلی ذاتی حیثیت میں ووٹ کاسٹ کرنے میں آزاد ہیں، ووٹر کے ذریعے پارٹی نمائندگی ہوتی ہے، اس میں مسائل ہو سکتے ہیں، سیکرٹ بیلٹ کا مطلب ہے کہ کوئی پولنگ بوتھ جائے تو اس پر ووٹ دیتے وقت دباؤ نہ ہو۔
چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ ہم نے آپ کی بات سن لی ہے، اب آپ جا سکتے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل کے بعد سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کے تناسب سے متعلق اٹارنی جنرل نے دلائل دیئے۔