سینٹ کے انتخابات جو تین مارچ کو ہوں گے اب چند دنوں کی مسافت پر ہیں لیکن اس مرتبہ جو سیاسی بھگدڑ ان انتخابات کے حوالے سے کافی عرصہ قبل شروع ہوگئی تھی ماضی قریب میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی جس کا عروج ان دنوں بالخصوص دارالحکومت اسلام آباد میں دیکھنے آرہا ہے۔ سینٹ کے ٹکٹ کے حصول اور ووٹوں کی خرید و فروخت کا معاملہ کوئی نئی بات نہیں نہ ہی اس کو اتنی برائی سمجھا جاتا تھا اور نہ ہی ووٹ کی اتنی قیمت ہوا کرتی تھی تین سے پانچ کروڑ روپے کو بھی خطیر رقم کی خرید و فروخت سمجھا جاتا تھا لیکن اب تو 70 کروڑ سے ایک ارب کی باتیں سننے میں آرہی ہیں حالانکہ مہنگائی اتنی بھی نہیں ہوئی لیکن ظاہر ہے کہ سینٹ کے انتخابات اس مرتبہ ایک خاص تناظر میں ہو رہے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن میں ہونے کے باوجود مقابلے کے لئے حکومت مخالفین بھاری پڑتے نظر آرہے ہیں جس کا ثبوت حکومت کی بار بار بدلتی ہوئی حکمت عملی اور دعوے نظر آتے ہیں۔
مثال کے طور پر یہ بات بہت پہلے طے کرلی گئی تھی کہ ڈاکٹر بابر اعوان، زلفی بخاری، شہزاد اکبر، کو حکومتی جماعت کی طرف سے سینٹ کا ٹکٹ دیا جائے گا ان کے علاوہ بھی کئی نام ایسے تھے جنہیں یقین دہانی بھی کرائی گئی تھی اور وہ بہت پرامید تھے لیکن اپوزیشن کے جارحانہ عزائم دیکھ کر معذرت کرلی گئی حتی کہ فیصل وائوڈا جن کی قومی اسمبلی کی نشست اورظاہر ہے کہ وزارت بھی خطرے میں ہے وہ بھی دائو پر لگادی گئ۔ عبدالقادر نامی ایک کاروباری شخصیت کو سینٹ کا ٹکٹ دینے کااعلان کیا گیا ًتو بلوچستان میںتحریک انصاف نے ایک نامانوس اور مشتبہ قرار دیتے ہوئے مذکورہ شخص کے خلاف شدید احتجاج کیا اور وزیر اعظم کو یہ فیصلہ واپس لینا پڑا تاہم ابھی حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے ایسے واقعات مزید سامنے آسکتے ہیں اور آہی بھی رہے ہیں۔
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سینیٹ کے انتخابات میں ہمیشہ حکومت کا ہی پلڑہ بھاری رہتا ہےلیکن اس مرتبہ اپوزیشن کہیں زیادہ پراعتماد ہے۔ مسلم لیگ(ن) کی نائب صدر میرم نواز نے تو وزیرآباد کے اجتماع میں یہاں تک کہہ دیا کہ ہو سکتا ہے کہ وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی نوبت ہی پیش نہ آئے اور سینیٹ کے انتخاب کے نتائج ہی کی صورت وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کی ضرورت پیش آجائے۔ پھر وزیراعظم کو خود اپنی جماعت کے ارکان پر دسترس برقرار رکھنے کیلئے ’’اضافی محنت‘‘ کی ضرورت پیش آرہی ہے۔ اپنے ارکان سے ان کا لب و لہجہ بدل چکا ہے۔ اب وہ ان سے ’’کسی کی بلیک میلنگ میں نہیں آئوں گا‘‘ جیسے جملے نہیں بول رہے بلکہ مسکرا مسکرا کر ان کی باتیں سن رہے ہیں اور انھیں یقین دھانیاں کرا رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں ان کی تمام مشکلات حل اور مطالبات تسلیم کرلیے جائیں گے۔
سینٹ کے انتخابات میں یوسف رضا گیلانی کی انٹری اچانک نہیں بلکہ یہ آصف علی زرداری کی دیرینہ حکمت عملی کا ایک طے شدہ منصوبے کا حصہ ہے جن کےبارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ اپنے’’سیاسی تاش سینے سے لگا کر کھیلتے ہیں‘‘ یوسف رضا گیلانی نے 1995 میں جنرل ضیاالحق کے غیر جماعت انتخابات میں حصلہ کے کر وفاقی سطح کی سیاست میں حصہ لیکر اپنے مد مقابل میاں نواز شریف کو قومی اسمبلی کی نشست پر شکست دی وہ قومی اسمبلی کے اسپیکر بھی رہے اور انہیں یہ اعزاز بھی حاصل رہا ہے کہ وہ چار سال تک مسلسل وزیر اعظم رہنے کے بعد پاکستان کی تاریخ میں طویل مدت تک وزیر اعظم رہے اس کے علاوہ وہ ملتان کے ایسے بااثر جاگیردارگھرانے سے تعلق رکھتے ہیں جو گزشتہ کئی نسلوں سے سیاست میں قدم جمائے ہوئے ہے۔
اب اس پس منظر کے ساتھ سینٹ کا الیکشن لڑنے والے یوسف رضا گیلانی الیکشن جیتنے کے بعد محض ایوان میں تقریریں تو نہیں کریں گے اور نہ ہی ان کے قائد آصف علی زرداری انہیں اس مقصد کے لئے لائے ہیں یقیناً ان کی اگلی منزل سینٹ کے چیئرمین کا منصب ہوگا اور اگر پیپلز پارٹی کو مطلوبہ صورتحال مل جاتی ہے اور آصف علی زرداری اپنے منصوبے کے مطابق قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرتے ہیں تو ایوان میں راہ ہموار کرنے کے لئے یوسف رضا گیلانی کا کردار انتہائی اہم ہوگا بالخصوص موجودہ حکومت میں پاکستان پیپلز پارٹی اور دوسری جماعتوں کے ان ارکان کو اپنا ہم خیال بنانے کے لئے جو مجبوراً ، اپنی جماعت سے ناراض ہوکر یا پھر کسی ترغیب کے زیر اثر حکومتی بنچوں پر جاچکے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ا کے منظر پر آنے سے حکومتی حلقوں میں خاصی بے چینی دیکھی جاتی ہے اور صرف حکومتی حلقوں میں ہی نہیں بلکہ اپوزیشن کے اتحاد، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں بھی ایسے خدشات پائے جاتے ہیں کہ مبادا ایسا نہ ہو کہ کامیابیوں کی شکل میں پاکستان پیپلز پارٹی مستقبل کی سیاست کے فیصلے تنہا کرے۔
یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن اور جے یو آئی سینٹ کے انتخابات کے بعد پہلی ترجیح عدم اعتماد کی تحریک کو نہیں بلکہ ’’لانگ مارچ‘‘ کو قرار دے رہی ہے۔ سینیٹ کے انتخاب کے حوالے سے دیگر امور کے علاوہ لوگوں کی نظر میں اس وقت اسلام آباد کی نشست پر لگی ہیں جہاں پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے امیدوار یوسف رضا گیلانی ہیں اور حکومت کے عبدالحفیظ شیخ، یوسف رضا گیلانی اپوزیشن کے متفقہ امیدوار ہیں جبکہ عبدالحفیظ شیخ کی نامزدگی پر بعض اعتراضات نے انھیں متنازع کردیا ہے اور پارٹی میں ہی ان کی مخالفت موجود ہے جبکہ ڈاکٹر عامر لیاقت جو اس وقت تحریک انصاف کے ہی رکن اسمبلی ہیں انھوں نے تو واضح کردیا ہے کہ وہ عبدالحفیظ شیخ کو ووٹ نہیں دینگے کیونکہ نہ تو ان کا تعلق تحریک انصاف سے ہے اور نہ ہی وہ تحریک انصاف کے باقاعدہ رکن ہیں۔
سینیٹ کے انتخاب میں اسلام آباد سے امیدوار کا حلقہ قومی اسمبلی کے ارکان ہوتے ہیں جو اپنے امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں اور امیدوار کو جیتنے کیلئے تقریباً 172 ووٹ درکار ہوتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کیلئے بھی اتنے ہی ووٹ چاہیے ہوتے ہیں اس لیے اگر اس انتخاب میں پی۔ڈی۔ایم کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک بھی کامیاب ہوگی اس لیے یہاں کانٹے دار مقابلہ ہوگا۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد سے یوسف رضا گیلانی کو الیکشن لڑانے کا فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر لیا گیا ہے۔ بعض حلقے اس موقعہ پر وزیراعظم عمران خان کے دیرینہ رفیق جہانگیر ترین جو ابتداسے ہی سیاسی طور پربھی ان کے ساتھ تھے کے کردار کو بھی خاصا اہم قرار دے رہے ہیں۔ جو ’’شوگر سکینڈل‘‘ کے حوالے سے عمران خان کے اعتماد سے محروم ہوگئے تھے اور بیرون ملک چلے گئے تھے اب وہ پاکستان واپس آچکے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے دوست وزیراعظم سے دوستی نبھاتے ہوئے ان کی مدد کرتے ہیں یا پھر اپنے ساتھ ہونے والی مبینہ ناانصافی کا حساب برابر کرتے ہیں ۔