اسلام آباد(نمائندہ جنگ/ نیوز ایجنسیز)سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ معاہدے سے پھر گئیں، میثاق جمہوریت میں خفیہ ووٹنگ ختم کرنیکا طے کیا اب عمل نہیں کررہیں، آرٹیکل 59میں خفیہ ووٹنگ کا ذکر نہیں،باہر کی باتوں سے غرض نہیں، آئین بذات خود سیاسی دستاویز، قوانین سیاسی، تشریح کرتے وقت عدالت سیاسی کام ہی کررہی ہوتی ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ووٹ کا جائزہ لئے بغیر جرم کیسے ثابت ہو گا؟،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ خفیہ ووٹ جرم کی حوصلہ افزائی ہے، ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ وفاقی کابینہ نے اپنا بوجھ سپریم کورٹ پر ڈال دیا، ریفرنس کا سوال غیر مناسب، معاملہ سیاسی، عدالت کو سیاسی سوالات سے دور رہنا چاہئے،ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے کہا کہ ووٹ ڈالنے کا عمل خفیہ ہونا چاہئے۔
تفصیلات کے مطابق عدالت عظمیٰ میں وفاقی حکومت کی جانب سے ’’سینیٹ کے انتخابات کیلئے کھلے عام رائے شماری کا طریقہ کار رائج کرنے‘‘ کے حوالے سے ذیلی قانون سازی سے متعلق قانونی و آئینی رائے کے حصول کیلئے دائر کئے گئے صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب، ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بھی اپنے دلائل مکمل کرلئے جبکہ ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا، ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان اور ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے اٹارنی جنرل کے دلائل کو ہی اختیار کیا۔
دوران سماعت چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے افسوس ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میثاقِ جمہوریت سے پھر گئی ہیں، دونوں جماعتوں نے میثاقِ جمہوریت میں انتخابات میں خفیہ طریقہ کار کو ختم کرنے کا معاہدہ کیا تھا، جس کی دستاویز اب بھی موجود ہے لیکن اس پر دستخط کرنے والی پارٹیاں اب اس پر عمل نہیں کررہی ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس بیلٹ پیپرز سے اچھا ثبوت کوئی نہیں ہو سکتا، سب سے پکا ثبوت ہی کمیشن کے پاس نہ ہو تو کیا کارروائی ہوگی۔
بادی النظر میں کوئی ثبوت ہو تو ووٹوں کا جائزہ لینے کا اختیار ہونا چاہیے، ووٹ کا جائزہ لئے بغیر جرم کیسے ثابت ہوگا؟۔ چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس مشیر عالم ،جسٹس عمر عطا بندیال ،جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس یحی آفریدی پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بنچ نے جمعرات کے روز آئین کے آرٹیکل 186کے تحت دائر کئے گئے صدارتی ریفرنس کی سماعت کی تو اٹارنی جنرل و چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرل،ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد اور دیگر متعلقہ حکام پیش ہوئے۔
فاضل چیف جسٹس نے سیکرٹری الیکشن کمیشن سے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن نے سینیٹ کے انتخابات میں ووٹروں کے لئے ہدایت نامہ تیار کیا ہے؟۔ جس پر انہوںنے اثبات میں جواب دیا اور تمام ججوں اور فریقین کو اس کی کاپیاں فراہم کیں۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے اٹارنی جنرل کے دلائل سے اتفاق کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ اس ہدایت نامہ میں متناسب نمائندگی اور خفیہ ووٹنگ کا ذکر موجودہے، ووٹ ڈالنے کا عمل خفیہ ہونا چاہئے، اراکین اسمبلی اپنی پارٹی کے نظم و ضبط کے پابند ہیں خلاف ورزی پرکارروائی ہوسکتی ہے، جس پر فاضل چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کارروائی سے متعلق استفسار کیا توانہوں نے موقف اختیار کیا کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے پرووٹر کے لئے کسی قسم کی کوئی سزا مقررنہیں ہے۔
جس نے اپنی پارٹی کے امیدوار کے خلاف ووٹ دینا ہے کھل کر دے تاہم ووٹوں کی خرید و فروخت پر سزاہو سکتی ہے، عوامی عہدہ کے لئے نااہلی بھی ہوسکتی ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئےالیکشن کمیشن کی سینیٹ الیکشن 2018 ءکی دستاویزات ہمیں ملی ہیں، آرٹیکل 63 اے کا اطلاق سینیٹ انتخابات پرنہیں ہوتا اورآرٹیکل 59 میں خفیہ ووٹنگ کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے سابق صدرآصف زرداری کے دس نشستیں جیتنے کے بیان کا حوالہ دیا تو چیف جسٹس نے کہا کہ عمومی گفتگو کی بجائے قانون کی بات کریں، جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 226 کے تحت وزیراعظم اوروزرائے اعلیٰ کے علاوہ ہرالیکشن خفیہ رائے شماری سے منعقد ہوگا، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ خفیہ رائے شماری میں متناسب نمائندگی نہ ہوتو وہ آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ قانون ہمیشہ معاشرے کے تجربات سے ہی بنتا ہے، کوئی برا واقعہ رونما ہوجائے تو اس کے حوالے سے قانون سازی ہوتی ہے، ہمیںموجودہ حالات میں شخصیات کی بجائے اداروں کو مضبوط کرنا ہوگا،اراکین اسمبلی کو سیاسی جماعتیں لے کر آتی ہیں،اور انہیں مزید مضبوط کرنا ہوگا، تاہم شفافیت کے لئے ہر چیز خفیہ رکھنا لازمی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 59 سینیٹ کے حوالے سے ہے تاہم اس میں خفیہ ووٹنگ کا کوئی ذکر نہیں ہے، ان کے دلائل ختم ہونے کے بعد ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ اس صدارتی ریفرنس میں اٹھایا گیا سوال ہی غیر مناسب ہے،اٹارنی جنرل نے خود کہا ہے کہ وہ اپنے سر پر بوجھ نہیں اٹھا سکتے ہیں، ہارس ٹریڈنگ کا سب نے سن تو رکھا ہے لیکن کسی کے پاس کوئی شواہد موجود نہیں ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا کبھی سینیٹ کا الیکشن چیلنج ہوا ہے؟ جس پر انہوں نے کہا کہ عدالت کو سیاسی سوالات سے دور رہنا چاہئے، چیف جسٹس نے کہا کہ آئین بذات خود بھی ایک سیاسی دستاویز ہے اور آئین کی شقوں کی تشریح کرتے وقت عدالت سیاسی کام ہی کر رہی ہوتی ہے۔
جس پر فاضل ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا کام شفاف الیکشن کے لئے انتظامات کرنا ہے، پولنگ بوتھ میں نہ رشوت چلتی ہے نہ امیدوار سے کوئی رابطہ ہوتا ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کے نتائج کے بعد ووٹ کا جائزہ لیا جاسکتا ہے؟
جس پر ا نہوں نے کہا کہ گنتی کے وقت ووٹ کو دیکھا جاتا ہے تاہم گنتی کے وقت ووٹ ڈالنے والے کا علم نہیں ہوتاہے ،انہوںنے کہاکہ آئین ووٹرکی شناحت ظاہر کرنے کی اجازت نہیں دیتا ،انہوںنے سوال اٹھایا کہ کیا اوپن بیلٹنگ سے ہارس ٹریڈنگ ختم ہوجائے گی؟
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اوپن بیلٹنگ سے ہارس ٹریڈنگ ختم ہوگی یا نہیں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں، جس پر فاضل ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ سینیٹ کے انتخابات آرٹیکل 226 کے تحت منعقد ہوتے ہیں اور یہ آرٹیکل انتخابی عمل کو خفیہ رکھنے کا پابند کرتا ہے،آئین کے تحت منعقدہونے والے انتخابات خفیہ ہی ہوتے ہیں،کابینہ کی منظوری کے بعد وفاقی حکومت آئین میں ترمیم چاہتی ہے اور اٹارنی جنرل نے اس کی وضاحت بھی کردی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کابینہ کے پاس یہ سارامعاملہ تھا لیکن انہوں نے یہ سارا بوجھ خود اٹھانے کی بجائے اس عدالت کے کندھوں پر ڈال دیا،اس مقدمہ میں سپریم کورٹ کا دائرہ کار ایڈوائزری کی حد تک ہے، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وہ کیسے؟
فاضل ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ عدالت صرف اٹھائے گئے سوالات کے جواب دے سکتی ہے لیکن اب بہت ساری باتیں ہورہی ہیں اور بہت کچھ سنا جارہا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں ان باتوں سے کوئی غرض نہیں ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ یہ مکمل سیاسی معاملہ ہے، عدالت کو اس سے پہلو تہی کرتے ہوئے خود کو سیاست سے بالاتر رکھنا چاہئے ،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آئین میں خود سیاسی قوانین موجود ہیں، ہم نے آئین کو دیکھنا ہے،جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ سینیٹ انتخابات منعقد کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے اور فاضل عدالت الیکشن کمیشن کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے دے۔
کرپٹ پریکٹسز کی روک تھام بھی عدالت نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کا کام ہے،انتخابی عمل میں کرپٹ پریکٹسز، رشوت ستانی نہیں ہونی چاہئیں، الیکشن ایکٹ 2017 میں اس حوالے سے سب کچھ موجود ہے، الیکشن کے مراحل اور ان کا طریقہ کار طے شدہ ہے، آئین کاآرٹیکل 226 بالکل واضح ہے۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ سب ٹھیک ہے لیکن آپ ووٹ کاسٹ کرنے کے وقت سے متعلق بتائیں، کیا اس وقت ووٹ کی چھان بین کی جاسکتی ہے کہ یہ قانون کے تحت کاسٹ ہوا ہے یا نہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ بیلٹ پیپر ایک بار ووٹر کے ہاتھ میں آجانے کے بعد اسے کوئی نہیں دیکھ سکتا، کسی کو اجازت نہیں کہ وہ دیکھے کہ ووٹر نے کس کو ووٹ دیا ہے۔
ووٹ کا اپنا تقدس ہے جس کو مجروح نہیں کیا جاسکتا، اس لئے ووٹ کی خفیہ شناخت کو مکمل تحفظ حاصل ہے،کہا جارہا ہے کہ ووٹ بکتے ہیں، فرض کرلیں ووٹ بکتے بھی ہیں تو بھی ان کی شناخت نہیں ہوسکتی ہے۔
جس پرجسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ ووٹ کی سیکریسی صرف بیلٹ بکس تک ہوتی ہے، اگر قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہو تو ٹریبونل یا الیکشن کمیشن کیسے جائزہ لے سکتا ہے؟ شکایت کی صورت میں کیا الیکشن کمیشن ووٹ کی شناخت کرسکتا ہے؟
جس پر فاضل ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ نہیں ایسا نہیں کرسکتا ہے، ایک ووٹر کو ووٹ کاسٹ کرتے ہوئے تو دیکھا جاسکتا ہے لیکن کس کو ووٹ دیا ہے کوئی نہیں دیکھ سکتا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ووٹ کی شناخت نہیں کی جاسکتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ افسوس ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) خوداپنے ہی کئے گئے معاہدے سے پھر گئی ہیں، دونوں جماعتوں نے میثاقِ جمہوریت میں انتخابات کے لئے خفیہ طریقہ کار کو ختم کرنے کا معاہدہ کیا تھا، میثاق جمہوریت کی دستاویز اب بھی موجود ہے، لیکن اس پر دستخط کرنے والی پارٹیاں اب اس پر عمل نہیں کررہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو پہلے اطمینان کرنا ہے کہ الیکشن میں گڑ بڑ ہوئی ہے، جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ کسی کا ووٹ دیکھنے سے کیسے پتا چلے گا کہ اس نے پیسہ لیا ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا مخصوص نشستوں پر ہونے والا الیکشن آئین کے تحت ہوتا ہے؟
جس پرفاضل ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ وہ الیکشن بھی آئین کے تحت ہی منعقد ہوتا ہے لیکن مخصوص نشستوں پر انتخابات کا طریقہ کار مختلف ہے، مخصوص نشستوں پر خفیہ ووٹنگ نہیں ہوتی ہے بلکہ سیاسی جماعتیں نامزدگیاں کرتی ہیں،جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اگرچہ مخصوص نشستوں پر ووٹنگ نہیں ہوتی ہے لیکن پھر بھی انہیںالیکشن ہی کہا جاتا ہے۔
جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے واضح کیا کہ سینیٹ میں متناسب نمائندگی صوبوں کی ہوتی ہے کسی سیاسی جماعت کی نہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ خفیہ رائے شماری کا اطلاق مخصوص نشستوں پر کیوں نہیں ہوتا ہے؟
جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 226 کا اطلاق وہاں ہوتا ہے جہاں ووٹنگ ہو، آرٹیکل 226 کی ایسی تشریح نہیں کی جاسکتی کہ آئین میں ترمیم کا تاثر ملے،انہوںنے صدارتی ریفرنس میں کھلے عام انتخابات کے انعقاد کی استدعا کے حوالے سے موقف اختیار کیا کہ اس کے لئے آئین میں ترمیم کرنا لازمی ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ دلائل مکمل ہونے کے بعد ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا، ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے اٹارنی جنرل کے دلائل کو ہی اختیار کیا جبکہ عدالت نے کیس کی مزید سماعت آج (جمعہ) تک ملتوی کردی۔