کراچی میں ہونے والے جرائم کے مختلف واقعات میں ملوث ملزمان کی اکثریت ٹین ایج اور نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اسٹریٹ کرائم ہو ڈکیتی ہو یا پھر کوئی اور جُرم ،ان جرائم میں ملوث اکثر ملزمان کی عمریں 15 سے 30 سال کے درمیان ہیں ۔شہر میں اس وقت اسٹریٹ کرائم کی وارداتیں بڑھتی جا رہی ہیں اور اسٹریٹ کرائم میں ملوث ملزمان کی اکثریت بھی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔مسقتبل کے معمار مجرم بن گئے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔اس بارے میں
کراچی پولیس چیف غلام نبی میمن کا کہنا ہے کہ اسٹریٹ کرائم میں ملوث ملزمان کی اکثریت منشیات کے عادی کم عمر اور نوجوانوں کی ہے اور وہ نشے کی ضرورتوں کو پُورا کرنے کے لیے اسٹریٹ کرائم کی وارداتیں کرتے ہیں۔ ‘‘
شہر قائد میں آئس جیسے مہلک نشے کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے اور آئس کا نشہ کرنے والے نوجوان دوران ڈکیتی شہریوں کو قتل کرنے سے بھی نہیں چوکتے ۔شہر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی موجودگی کے باوجود مختلف علاقوں میں منشیات کی کُھلے عام فروخت جاری ہے اور اب مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس کے نوجوان بھی آئس جیسے نشے کی لت میں مبتلا ہو رہے ہیں ، جس کی وجہ سے وہ پھر دیگر جرائم میں ملوث ہو جاتے ہیں ۔اسی طرح بچوں کے اندر بھی والدین کی مناسب توجہ اور تربیت نہ ہونے کے باعث منفی رویے اور عادات فروغ پا رہی ہیں ۔بچوں کے رویوں اور عادات میں تیزی سے پیدا ہونے والے خطرناک مسائل اور رجحانات کے حوالےسے تحقیق کرنے والے ادارے’’فارایور‘‘کی جانب سے اپنی نوعیت کی منفرد ریسرچ کی گئی ہے۔
ریسرچ ساتویں جماعت سے فرسٹ ایئر کے ڈھائی ہزار طلباء پر کی گئی، اس میں لڑکوں کے ساتھ تقریباً 950 لڑکیاں بھی شامل ہیں۔ یہ ریسرچ سال 2012 میں شروع کی گئی تھی اور 2019 میں ریسرچ کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا۔ ریسرچ معاشی لحاظ سے 3 کیٹیگریز کے علاقوں میں کی گئی، جن میں لوئر مڈل کلاس ،مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس شامل ہے۔ تینوں کیٹیگریز سے تعلق رکھنے مختلف علاقوں کے رہائشی گھرانوں کے طلباء پر ریسرچ کی گئی۔ ریسرچ میں غیر تعلیم یافتہ، کم پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ گھرانوں کے طلباء شامل ہیں۔ریسرچ کے لیے ون ٹو ون ملاقاتوں کے علاوہ گروپ ڈسکشن، فیلڈ اسٹڈی،سروے اور آبزرویٹری طریقہ کار استعمال کیا گیا۔ریسرچ کے معیار اور حقائق کی درستگی یقینی بنانے کے لیے بعض کیس اسٹیڈیز کا 17 سے 18 ماہ تک فالو اپ کیا گیا۔
ریسرچ میں ٹین ایج بچوں کے دیگر چھوٹے موٹے ایشوز کے علاوہ چار خطرناک مسائل کی موجودگی سامنے آئی ، جس میں نشے کا استعمال ،مجرمانہ خیالات اور عمل درآمد کی کوشش ،باغیانہ سوچ اور جنسی جذبات کی تسکین کی شدت شامل ہے۔ڈائریکٹر ریسرچ’’فارایور‘‘ محمد اسعدالدین کے مطابق بچوں میں مسائل کی نمایاں وجوہات میں سب سے پہلے فیملی( بہ طور ادارہ) ٹوٹ پھوٹ میں غیر معمولی اضافہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ طلاق اور خلع کی تعداد میں روز بروز تیزی سے اضافہ اس کی بنیادی وجہ ہے۔
دوسرے نمبر پر شوہر اور بیوی کے آپس کے اختلافات اس کی وجہ بن کر سامنے ائے ہیں، جس کا براہ راست اثر بچوں پر پڑتا ہے،تیسرا بچوں کے ساتھ کمیونیکش گیپ اور پھر تربیت میں عدم توجہی کی وجہ سے دیگر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ بد قسمتی یہ ہے کہ نئی نسل کو معاشرے میں جس رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے، وہ انہیں میسر نہیں ہے۔ والدین کی زیادہ تر توجہ روزگار اور دیگر ضروریات پُوری کرنے پر مرکوز رہتی ہے، جس کی وجہ وہ اپنی اولاد کی تربیت کو نظر انداز کردیتے ہیں اور بچوں کی بڑھٹی ہوئی عمر سے تعلق رکھنے والے نفسیاتی مسائل سے غافل رہتے ہیں۔
پاکستان دُنیا کے ان چند خوش نصیب ملکوں میں شامل ہے، جس کی آبادی کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم ان نوجوانوں کو اپنی طاقت بنا کر دنیا میں ترقی کی منازل طے کرتے، لیکن معاشرے کی اندر منفی رویوں کے فروغ ،خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ سمیت دیگر وجوہات کے باعث ہمارا نوجوان مثبت کے بہ جائے منفی سوچ کا حامل بن گیا ہے اور اس کے رویے تعمیر کے بہ جائے تخریب کی جانب گامزن ہیں، جب تک ان مسائل پر توجہ نہیں دی جائے گی، ہم چاہے پولیس فورس میں اضافہ کردیں یا جرائم سے نمٹنے کےلیے نئے اور جدید ادارے قائم کر دیں،اس طرح جرائم کم نہیں ہوں گے۔جرائم پر قابو پانے کے لیے ہمیں سب سے پہلے ان وجوہات کی جانب توجہ دینا ہو گی، جس کی وجہ سے ہمارے نوجوان جرائم کی طرف راغب ہو رہے ہیں ۔
وجوہات جاننے کے بعد ہمیں بیٹھ کر ایک ایک مسئلے کا قلیل المدتی اور کثیر المدتی حل نکالنا ہو گا اور پھر حکومتی مشینری ،خاندان اور معاشرے کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے فرد کو نیک نیتی اور خلوص سے اس میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا، تاکہ ہمارے معاشرے میں جرائم کی شرح بھی کم ہو اور نئی نسل اس ملک کے حال اور مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے یکسوئی کے ساتھ جدوجہد کر سکے۔