• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قوم حیران و پریشان ہے کہ اس ملک میں کیا ہو رہا ہے کسی کو سمجھ نہیں آ رہی کہ رہنما کون ہے اور رہزن کون؟ جن کو قوم نے سیاسی رہنما سمجھا وہ ایک دوسرے کو رہزن کہتے ہیں۔ یہ سیاسی تماشا ہے یا اس قوم کے ساتھ مذاق کیا جا رہا ہے۔ سیاسی رہنما کبھی پاک فوج پر الزامات لگاتے ہیں۔ کبھی بعض سیاسی رہنما بلاوجہ پاک فوج کو اپنے ساتھ ملانے کے دعوے کرتے ہیں۔کبھی عدالتوں سے شکوے اور کبھی بیورو کریسی کو اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ کبھی الیکشن کمیشن کی تعریفیں تو کبھی اس اہم ادارے پر جانبداری کے الزامات لگاتے ہیں۔ اپنے اپنے دور حکومت میں پولیس کو سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرتے ہیں اور جب وہی سیاست دان اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو پولیس کو دھمکیاں دیتے اور کہتے ہیں کہ تم لوگ سرکاری ملازم ہو کسی جماعت یا فرد کے ملازم نہیں ہو۔ یہ ہے ہماری سیاست اور یہ ہے ہماری جمہوریت ۔اب تو سیاست اس نہج پر پہنچ گئی ہے بلکہ پہنچا دی گئی کہ عزت دار آدمی کے لئے سیاست کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ اداروں کو بدنام کرنا ہی سیاست اور جمہوریت بن گیا ہے۔ یہ محض وقتی مفادات کے لئے کیا جا رہا ہے یا بیرونی اشاروں پر۔ یہ تو معلوم نہیں ہے لیکن ایک بات پوری قوم کو سمجھ میں آ رہی ہے کہ ملکی اداروں کو بدنام اور کمزور کرنے کی کوششیں اور اداروں کو دھمکیاں دینا کسی بھی طرح ملک و قوم کے مفاد میں نہیں بلکہ یہ ملک کو کمزور اور بدنام کرنے کے مترادف ہے۔ نہ اس قوم کو ایسی سیاست کی ضرورت ہے نہ ایسی نام نہاد جمہوریت کی۔ عوام کو دال روٹی کے چکر میں ڈالے رکھو، مخالفین کو مقدمات میں الجھائے رکھو اور حکومت کرو۔ موجودہ صورتحال کو دیکھیں تو یہی موجودہ جمہوری حکومتوں کا فارمولہ نظر آتا ہے۔ عوام کو نعروں اور وعدوں میں پھنسا کر ان سے ووٹ نکلوا لو اور پھر ان کو بیکار چیز سمجھ کر کباڑ خانے میں پھینک دو اور اگر پھر ضرورت پڑے تو یہی طریقہ پھر آزمائو۔ مسائل، غربت ،مہنگائی، ناانصافی اور بیروزگاری کے مارے لوگ پھر جھانسے میں آجائیں گے ۔حالیہ ضمنی انتخابات میںڈسکہ کے افسوسناک واقعہ کو دیکھ لیں۔ اس واقعہ میں دو قیمتی جانیں چلی گئیں۔ یہ بات قابل غور ہے کہ ایسا کس نے کیا اور ایسا کیوں ہوا، اس ا ندوہناک واقعہ میں فائدہ کس کو ہونا تھا اور نقصان کن کا ہوا؟کیا یہی جمہوریت ہےکہ سیاسی مفاد کیلئے ووٹ لینے والوں نے دو گھر اجاڑ دیے۔ اس واقعہ میں کس سیاسی جماعت کے افراد ملوث ہیںان کی نشاندہی کرنا تو انتظامیہ اور پولیس کا کام ہے لیکن یہ بات تو عیاں ہے کہ اندوہناک اور افسوسناک واقعہ ’’ووٹ‘‘ ہی کا شاخسانہ ہے۔ اس حلقہ میں کوئی ایک امیدوار جیت جائے گا ،کوئی ایک ہارے گا۔ لیکن جن کا جانی نقصان ہوا ان کا مداوا کیا اور کیسے ہو گا ۔مزید افسوسناک بات یہ ہے کہ اب بعض لوگ ڈسکہ جا کر اور بعض بیانات کے ذریعے اس واقعہ سے بھی سیاسی مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دونوں سیاسی مخالف جماعتیں ایک دوسرے کو اس واقعہ کا ذمہ دار قرار دے رہی ہیں۔ خدارا! اس واقعہ میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کوسیاست کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے بلاشک و شبہ یہ کھلی دہشت گردی کا واقعہ ہے۔ اس میں ملوث افراد کے خلاف خواہ ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو بلا امتیاز کارروائی کی جائے۔ ملوث افراد کو اس دہشت گردی پر اکسانے اور اسکے سہولت کاروں کے خلاف بھی اسی طرح کارروائی کر کے سب کو نشان عبرت بنایا جائے۔ نوشہرہ کے صوبائی انتخاب میں صوبائی وزیر کی وزارت گئی اور بھی پتہ نہیں کیا ہو گا۔ سیاست نے بھائی کو بھائی کا مخالف بنا دیا۔ یہ جمہوریت ہے جب بھائی ایک دوسرے کے مخالف بن جائیں تو قوم ایسی سیاست اور جمہوریت سے بھلائی کی کیا توقع رکھے گی۔اب سینیٹ الیکشن کی آمد آمد ہے۔ حالانکہ ابھی تقریباً دس دن باقی ہیں۔لیکن سیاست دان ہی سیاست دان کی توہین کر رہے ہیں۔ سیاست دان اور سیاسی قائدین تک قومی اورصوبائی اسمبلیوں کے منتخب ارکان کو فروخت کا مال سمجھتے ہیں۔ گزشتہ دنوںسال2018، کی وڈیوزبھی دکھائی گئیں۔ باخبر ذرائع تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اس طرح کی اور بھی کئی وڈیوز موجود ہیں۔ جبکہ وڈیوز میں نظر آنیوالے لوگ نہ صرف لگائے گئے الزامات کی تردید کرتے ہیں بلکہ کچھ اور بتاتے ہیں۔سچ کیا ہے یہ شاید سامنے نہ آسکے۔ حکومت گورننس کی ناکامی کا ملبہ بیورو کریسی پر ڈالتی ہے تو سیاسی اور اخلاقی خراب ’’گورننس‘‘ کے ذمہ دار کون ہیں۔ جہاں اس طرح کی وڈیوز بنائی جاتی ہیں ان حالات کی ذمہ داری کن لوگوں پر عائد کی جا سکتی ہے۔ بات ہو رہی تھی سینیٹ الیکشن کی۔ معلوم نہیں حکومت اوراپوزیشن دونوں نے سینیٹ کے انتخابات میں ساری توجہ اسلام آباد کی نشست پر کیوں مرکوزکر رکھی ہے۔دونوں فریقوں کا خیال ہے کہ اگر حکومت یہ نشست جیت جائے تو حکومت کی بقا ہو گی جبکہ اپوزیشن یہ سمجھتی ہے کہ اگر سید یوسف رضا گیلانی جیت گئے تو یہ حکومت کی اخلاقی طور پر رخصتی کا باعث ہو گا۔ اور یہ جیت حکومت کو اسلئے مشکل نظر آ رہی ہے کہ اس نے یوسف رضا گیلانی جیسی سیاسی شخصیت کے مقابلے میں ایک غیر سیاسی امیدوار کو میدان میں اتار دیا ہے۔ یہ تو وقت آنے پر پتہ چلے گا کہ ’’ سیاست دان کس کے حق میں رائے دیتے ہیں ‘‘ لیکن حالیہ ضمنی انتخابات ہوں یا آنیوالے سینیٹ انتخابات، ایک بات تو واضح ہو گئی کہ فوج کا سیاست اور سیاسی معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ حسب سابق پھر عرض ہے کہ اصل تبدیلی اسی سال آئے گی۔پھر ملک وقوم دونوں کی خیر ہو گی اور پاکستان کے ہر شعبۂ زندگی میںترقی دنیا دیکھے گی۔

تازہ ترین