• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی فوجیوں میں خودکشی کی بڑھتی شرح خصوصی تحریر…اسد مفتی ،ہالینڈ

امریکی فوجی اڈے فورٹ کیمپ کے انچارج جنرل اسٹیفن ٹائون سینڈ نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اس سال جنوری تا مارچ ان ابتدائی مہینوں میں اوسط ہر ہفتے ایک امریکی فوجی نےخودکشی کی۔ جبکہ مئی 2015 ءکے تیسرے ہفتے میں ایک ساتھ دو فوجیوں نے خودکشی کرلی۔ ایک دوسری خبر کے مطابق ہالینڈ کے ایک روزنامے نےلکھا ہے کہ وسط مشرقی ریاست کینٹکی میں امریکی فوجی اڈے کیمپ بیل میں گزشتہ پانچ ماہ کے دوران 11فوجی اہلکار جنگ کے نفسیاتی اور ذہنی دبائو کے نتیجے میں خودکشی کرچکے ہیں۔ رواں سال کسی بھی امریکی فوجی اڈے پر اہلکاروں کی خودکشیوں کے حوالے سے سب سے بڑی تعداد ہے اس صورت حال میں فورٹ کیمپ کے کمانڈر نے تمام فوجیوں کے معمول کے فرائض کو تین دن کیلئے معطل کردیا تاکہ وہ ان خودکشیوں کے اسباب کا پتہ لگاسکیں اور ممکنہ طور پر خودکشی کرنے والے دیگر فوجیوں کی مدد کرسکیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ برس 128امریکی فوجیوں نے خودکشی کی تھی جبکہ 2010ء میں یہ تعداد 115تھی۔امریکی افواج میں گزشتہ چند برسوں سے خودکشی کی شرح اموات بڑھ رہی ہے ۔اس سلسلے میں اعلیٰ فوجی حکام کا کہنا ہے کہ ان خودکشیوں کی بنیادی وجہ عراق اور افغانستان کی جنگوں میں امریکی فوجیوں کی شمولیت ہے۔ امریکی فوج کے سیکرٹری پیٹ گیرن کا کہنا ہے کہ یہ ہمارے لئے سب سے اہم چیلنج ہے کہ خودکشی کی شرح کیوں بڑھ رہی ہے؟ اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے ہماری کوششیں جاری ہیں۔ امریکہ میں شائع ہونے والے ایک سروے کے مطابق خودکشی کرنے والے فوجیوں میں 35فیصد ایسے فوجی ہیں جو محاذ جنگ پر لڑ رہے تھے جبکہ 30فیصد فوجیوں کو جنگی علاقوں سے دور رکھا گیا تھا۔ ان 30فیصد فوجیوں میں ایک چوتھائی وہ فوجی اہلکار تھے جو پہلی بار جنگ میں حصہ لے رہے تھے۔عراق اور افغانستان کے محاذوں سے واپس امریکہ پلٹنے والے فوجیوں کی ایک بڑی تعداد نے ایک سال سے دو سالوں میں خودکشی کرلی، ان خودکشیوں کی شرح چونکا دینے والی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق امریکی فوجیوں میں خودکشی کی شرح امریکی معاشرے میں سویلین خودکشیوں کی شرح سے بڑھ گئی ہے۔ ایک واقعہ پیش خدمت ہے۔ فریڈاک ہسی ایک امریکی سپاہی ہے اور امریکہ کیلئے اس نے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ عراق کی جنگ میں اس نے بطور فوجی معالج اپنے فرائض انجام دیئے ہیں۔ محاذ جنگ پر ’’معمول‘‘ کے واقعات کے علاوہ اس کے ساتھ کئی سنگین واقعات و معاملات بھی پیش آئے مگر جب سے ہسی امریکہ لوٹا ہے اس کی طبیعت درست نہیں ہے وہ بتاتا ہے کہ ایک موقع پر جب گرینیڈ سے دھماکہ کیا گیا تو میرے دماغ نے کام کرنا بند کردیا اس صورت حال کی وجہ سے ہسی کو واپس امریکہ بھیج دیا گیا مگر جب سے وہ گھر لوٹا ہے اس کا سکون برباد ہوچکا ہے اس کے سر میں مستقل درد رہتا ہے اسے نیند نہیں آتی وہ بہت سی باتیں بھول جاتا ہے۔ ہسی کا کہنا ہے کہ وہ Post Traumatic Stress Order کا مریض بن چکا ہے یہ ایک ایسی بیماری ہے جس کا تعلق دماغ سے ہے اور جس کی وجہ سے انسان کو متعدد بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں جبکہ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ہسی کے دماغ پر شدید چوٹیں آئی ہیں اور وہ دماغی طور پر مفلوج ہوتا جارہا ہے اور صرف یہی نہیں اسے زکام، سردرد، بے خوابی اور کمزور یادداشت کی خرابی کی بیماریاں بھی لگ چکی ہیں۔ ہسی اب اپنے آبائی شہر کرولینا ریاست میں مقیم ہے اور اس کا کہنا ہے کہ پہلے لگتا تھا کہ مجھے ایسی کوئی خاص بیماری نہیں ہے بلکہ میں عام شکایات میں مبتلا ہوں مگر اب مجھے لگتا ہے کہ میرے ساتھ کوئی خاص ’’معاملہ‘‘ ہے میں بالکل بھی ٹھیک نہیں ہوں حتیٰ کہ مجھے عراق جنگ میں اپنے ساتھیوں کے نام بھی یاد نہیں ہیں اور جب بھی جنگ کے دنوں کے بارے میں سوچنے کیلئے اپنے دماغ پر زور ڈالتا ہوں تو میرے سر میں درد شروع ہوجاتا ہے۔ یہاں آپ کو یہ بتانا بھی مقصود ہے کہ صرف فریڈاک ہسی ہی نہیں بلکہ امریکہ کے بے شمار فوجی اس طرح کی بیماریاں لے کر گھر لوٹے ہیں تاہم ڈاکٹروں کیلئے یہ بات باعث حیرت ہے کہ فوجیوں کو دماغی امراض کس طرح لاحق ہو سکتے ہیں اور وہ بھی اتنی بڑی تعداد میں جبکہ انہوں نے جنگ میں خاص فوجی ہیلمٹ بھی پہن رکھے تھے اور سر پر کسی چوٹ کا نشان بھی موجود نہیں ہے اور فوجیوں کے مختلف طبی ٹیسٹوں میں کوئی بھی ایسی علامت نہیں مل رہی جن کل تعلق دماغی امراض سے ہوتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سال 2014ء میں امریکہ واپس لوٹنے والے فوجیوں کی تعداد ڈھائی ہزار تھی جن میں 62فیصد فوجی دھماکوں سے متاثر ہوئے تھے جبکہ صرف 2فیصد فوجی وہ تھے جنہوں نے گولیوں سے زخم کھائے تھے۔ڈاکٹر اس بات پر فکر مند ہیں کہ اگر دھماکہ ہوتا ہے تو اس سے جسمانی نقائص ضرور پیدا ہوجاتے ہیں مگر ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ اس سے دماغی صلاحیتیں بھی متاثر ہوں ، یہاں تک کہ فوجیوں کو اپنے جنگی معاملات و واقعات یاد کرنے میں بھی دشواری پیش آئے۔میں نے بائبل میں کہیں پڑھا ہے کہ وہ لوگ جو ہتھیاروں کے سائے میں رہتے ہیں ان کا خاتمہ بھی ہتھیاروںہی سے ہوتا ہے۔
تم ہمیں گرد سفر جان کے رسوا نہ کرو
ہم تمہیں راہ دکھانے کیلئے زندہ ہیں
تازہ ترین