ایک دور وہ بھی تھا، جب لاہور فلم انڈسٹری پُورے ملک پر راج کرتی تھی، قیام پاکستان کے بعد ایک سے بڑھ کر ایک شاہ کار فلم پروڈیوس کی گئی، ملک کے کونے کونے سے فن کار لاہور کا رخ کرتے اور فلموں میں کام کرکے اپنی قسمت ازماتے تھے۔لاہور فلم اندسٹری کو لالی وڈ کہا جاتا ہے، پھر انڈسٹری پر مشکل وقت آیا، تو سارا ماحول بدل گیا اور لاہور کے اسٹوڈیوز میں سناٹوں نے ڈیرے ڈال لیے، تو فن کاروں نے کراچی کا رُخ کیا۔ کراچی کے ہنر مندوں اور فلم سازوں نے فلم انڈسٹری کو بحال کرنے کی کوشش کی۔
تاہم اب تک ان کو مشکلات کا سامنا ہے۔ لالی وڈ نے ماضی میں یاد گار اردو اور پنجابی فلمیں بنائیں، جن کی وجہ سے سنیما گھروں میں رونق رہتی تھی۔ہم ان کی خدمات کو کیسے فراموش کرسکتے ہیں۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ ان دنوں سنیما گھروں پر تالے لگے ہوئے ہیں۔ آج ہم چند ایسے فن کاروں اور ہنر مندوں کا ذکر کریں گے، جو فلموں کی خُوب صورت یادوں کے ساتھ ہمارے درمیان موجود ہیں۔ فلم انڈسٹری کی معروف شخصیت امجد رشید نے سوشل میڈیا پر ان فن کاروں اور ہنر مندوں کی پزیرائی کا سلسلہ شروع کیا ہے،جس میں لالی وڈ کے چمکتے ستاروں کے کام کو خراج پیش کیا گیا ہے۔فلم انڈسٹری کے لوگ ان کے اس اقدام کی تعریفیں کررہے ہیں۔ ہم آج چند ایک کا ذکر کریں گے۔\
ندیم :فلم اسٹار ندیم کا نام آتے ہی پاکستانی فلمی صنعت کا وہ گولڈن پیریڈ ذہن میں آتا ہے، جب سینما کی دُنیا میں اس اسٹارز کی روشنی سے ہر طرف چمک ہی چمک تھی۔ بے شمار سپر ہٹ فلموں کے ہیرو جنہوں نے تین نسلوں تک اپنے فن کی بدولت راج کیا۔ آج بھی ندیم فلم اور ٹی وی میں کام کر رہے ہیں۔ یہاں بھی اُن کا فن اپنے وقار کے ساتھ اپنے سفر پر رواں دواں ہے۔ سنہرے دور کی یادیں اور کئی سپرہٹ مقبول گیت ان پر فلمائے گئے۔جن کی بازگشت آج بھی سنائی دیتی ہے۔’’ ؎کہاں ہو تم کو ڈھونڈ رہی ہیں‘‘۔اداکاری کے ساتھ انہوں نے گلوکاری بھی کی اور اپنی آواز میں کئی نغمے ریکارڈ کرائے۔ ندیم کا نام ایک زمانے میں فلم کی کام یابی کی ضمانت مانا گیا اور آج ندیم ،ندیم بیگ بن کر ٹی وی ڈراموں میں کام کر رہے ہیں، خوش رہیں سلامت رہیں۔ہم سب کے ندیم۔
’’ناصر ادیب‘‘ کو اصل شہرت پنجابی فلم ’’وحشی جٹ‘‘ کے اسکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے ملی اور پھر اسی فلم کے تسلسل پر انہوں نے فلم ’’مولا جٹ‘‘ لکھی اور موجودہ دور میں لیجنڈ آف مولا جٹ کے ٹائٹل پر بہ طور مصنف، ان کا نام شامل ہے۔ وحشی جٹ کے بعد پنجابی سینما میں گنڈاسا کلچر کے بانی ناصر ادیب نے پنجابی سینما باکس کو تشدد، خون خرابے اور ماردھاڑ کے مناظر سےبھر پُور بنادیا۔ ان کی لکھی ہوئی اکثر فلمیں اسی طرح کی ہوا کرتی تھیں،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پنجابی سینما یکسانیت کا شکار ہوکر زوال پذیر ہوگیا۔ ناصر ادیب آج تک بھی اپنے اس مخصوص انداز سے باہر نہیں نکل سکے۔ البتہ انہوں جو فلمیں لکھیں،ان فلموں نے باکس آفس پر کئی ریکارڈز قائم کیے۔ اس طرح کے لکھاری اب کم کم دیکھنے میں آتے ہیں۔
موسیقار ذوالفقار علی:۔ موسیقار علی یہ موسیقار 80ء کی دہائی میں اپنے سپرہٹ نغمات کی وجہ سے بہت مشہور ہوئے۔ فلم دوھئی دا سوال اے، یہ مقبول عام گانا ؎میرے دل دے شیشے پہ سجدی رہے تصویر تیری، اور فلم ’’دلاں دے سودے‘‘ کا یہ گیت ؎ایویں تے نیئں ڈھولا تیرے پیچھے پیچھے آندی آں، کی مقبولیت نے اس کے نام اور کام کو شہرت دی۔ سید نور کی آل ٹائم سپرہٹ فلم ’’چوڑیاں‘‘ کا میوزک بھی انہوں نے ترتیب دیا۔ 80ء اور 90ء کی دہائی میں موسیقار ذوالفقار علی نے بے حد لاجواب اور سپرہٹ نغمات کمپوز کیے، جن سے لالی وڈ میوزک نے ہر طرف دُھوم مچا دی۔
سید نور:۔ معروف ہدایت کار ایس سلیمان کے ساتھ بہ طور معاون اپنے کیرئیر کا آغاز کرنے والے سید نور موجودہ دور کے ایک کام یاب اور مقبول ہدایت کار، فلم ساز اور مصنف ہیں۔ 1971ء میں پہلی بار ان کا نام ایس سلیمان کی اردو فلم ’’تیری صورت میری آنکھیں‘‘ کے ٹائٹل پر بہ طور معاون ہدایت کار آیا۔ ہدایت کاری چھوڑ کر یہ فلموں کی کہانیاں لکھنے کی طرف آگئے۔ ہدایت کارہ سنگیتا کی فلم ’’سوسائٹی گرل‘‘ لکھی، جو 1976ء میں بے حد کام یاب رہی۔ پھر ان کا شمار ایک کام یاب مصنف کے طور پر ہونے لگا۔
بہ طور ہدایت کار پہلی فلم ’’قسم‘‘ بنائی، جو ناکام رہی، لیکن ان کی فلم ’’جیوا‘‘ بے حد کام یاب رہی، جس نے انہیں ایک کام یاب ہدایت کار بنادیا تھا، چوڑیاں، مجاجن اور ڈاکو رانی جیسی سپرہٹ فلمیں ڈائریکٹ کیں۔اسی دوران انہوں نے موجودہ دور کی معروف اداکارہ صائمہ سے دوسری شادی کرلی، جب کہ اُن کی پہلی بیوی رخسانہ نور تھیں، جن کا کچھ عرصے قبل انتقال ہوگیا ہے۔
عرفان کھوسٹ:۔ فلم، ریڈیو، ٹی وی اور اسٹیج کا ایک بہت ہی بڑا اور معتبر نام عرفان کھوسٹ، جن کا پورا گھرانہ پرفارمنگ آرٹ سے وابستہ ہے۔ ان کے والد بزرگوار سلطان کھوسٹ اپنے دور کے نامور مزاحیہ اداکار گزرے ہیں۔ مزاح کا عنصر ان کے خون میں شامل ہے۔ عرفان کھوسٹ کے کئی لازوال کردار آج بھی عوام میں بے حد مقبول ہیں، خاص طور پر ڈراما سیریل ’’اندھیرا اجالا‘‘ کے ڈائریکٹ حوالدار کو بھلا کون بھول سکتا ہے۔ اپنے اس کردار پر انہوں نے ایک ذاتی فلم بھی بنائی تھی، جو کام یاب رہی۔ ان کے بیٹے سرمد کھوسٹ بھی ایک نامور ٹی وی پروڈیوسر، ہدایت کار اور اداکار ہیں۔
شاہد:۔ 70ء کی دہائی کا ذکر ہے، جب محمد علی، وحید مراد اور ندیم کے مقابل کوئی نیا ہیرو نہ جم سکا، تو ان تینوں سپر اسٹار کے مقابل شاہد کا نام کا ایک نیا ہیرو فلم ’’ایک رات‘‘ کے ذریعے متعارف ہوا۔ یہ 1971ء کی بات ہے۔ ایک رات سے قبل ان کی ایک فلم ’’آنسو‘‘ پہلے ریلیز ہوگئی، جو بے حد کام یاب رہی، لیکن اپنی دوسری ریلیز فلم ’’تہذیب ‘‘ میں جب وہ ہیرو آیا، تو ہر طرف اس نئے ہیرو کی دُھوم مچ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے تین سپر اسٹار کے بعد چوتھا سپر اسٹار ہیرو مانا گیا۔
شاہد اپنے مدِمقابل ہیروز سے ایک قدم آگے بڑھا، وہ اردو کے ساتھ پنجابی فلموں میں بھی پسند کیا گیا۔ جب کہ محمد علی، وحید مراد، ندیم صرف اردو فلموں تک محدود رہے۔ شاہد کا دور ایک کام یاب اور یادگار دور تھا۔ فلموں کے علاوہ انہوں نے ٹی وی پلے میں بھی اداکاری کی۔ آج بھی ان کا فنی سفر جاری ہے۔
’’سنگیتا‘‘ بہ طور اداکارہ فلم ’’کنگن‘‘ میں سب سے پہلے اداکار رحمان کے مقابل بہت کم سنی میں ہیروئن آئیں۔ جب کہ فلم کا ہیرو ان کی عمر سے دُگنا تھا، جو فلم کی ناکامی کا باعث بنا۔ سنگیتا کا اصل نام پروین ہے۔ فلم کنگن کی ناکامی کے بعد چند فلموں میں ثانوی کردار کرنے کے بعد ریاض شاہد کی فلم ’’یہ امن‘‘ سے انہیں شناخت ملی۔ اور پھر وہ دن بھی آیا، جب وہ کام یاب ہیروئن بن گئیں۔ اداکاری کے ساتھ انہوں نے بہ طور ہدایت کارہ 1976میں پہلی فلم ’’سوسائٹی گرل‘‘ بنائی اور وہ بے حد کام یاب ثابت ہوئی۔ سنگیتا،اداکاری سے زیادہ بہ طور ہدایت کار کام یاب رہیں۔
اُن کے کریڈٹ پر بہ طور ہدایت کار کئی کام یاب فلمیں رہیں، جن میں ’’مٹھی بھر چاول‘‘ جیسی کلاسیک فلم بھی شامل ہے۔ دنیا کی فلمی صنعت میں یہ پہلی خاتون ہدایت کارہ ہیں جن کے کریڈٹ پر بہ طور ہدایت کارہ سب سے زیادہ فلمیں ہیں۔ان کی بہن کویتا نے بھی فلمی صنعت میں بہ طور ہیروئن کافی شہرت پائی۔
حسن عسکری: ایک تعلیم یافتہ ،ترقی پسند ہدایت کار نے 1970میں پہلی فلم ’’خون پسینہ‘‘ بنائی اور اس کےبعد کئی شاہ کار فلمیں ان کے کریڈٹ پر ہیں اردو اور پنجابی کے کام یاب ہدایت کار حسن عسکری نے وحشی جٹ ،طوفان، سلاخیں،دوریاں، تیرے پیار میں جیسی سپرہٹ اور لازوال فلمیں ڈائریکٹ کیں۔
الطاف حسین : کمرشل اور تفریحی سے بھرپور فلمیں بنانے والے الطاف حسین کا شمار بھی پنجابی فلموں کے مایہ ناز ہدایت کار کے طور پر ہوتا ہے۔ بدمعاشوں ،گجروں اور خون خرابے کی فلموں کے دور میں انہوں نے سالا صاحب، دہی رانی اور مہندی جیسی گھریلو سوشل ڈراما فلمیں بنائیں۔ ان کے کریڈٹ پر کئی فلمیں ہیں۔ بہ طور ہدایت کار انہوں نے ہمیشہ کمرشل فلمیں بنائیں۔
نِشو: ماضی کی یہ مقبول ہیروئن جب مسکراتی ہیں تو ان کے رخساروں پر گڑھے( ڈمپل)پڑجاتے ہیں، فلم انڈسٹری میں یہی ان کی پہچان بنی۔ فلم ’’بازی‘‘ سے فلمی کیریئر کا آغاز کرنے والی مایہ ناز اداکارہ کا اصل نام بلقیس ہے،بعد ازاں وہ نِشو کے نام سے فلمی صنعت میں پہچانی گئیں۔ نِشو کی بیٹی اداکارہ صاحبہ نے بھی فلمی صنعت میں شہرت پائی اور پھر مزاحیہ اداکار افضل جان ریمبو سے شادی کے بعد فلمی دنیا کو چھوڑ گئیں۔
ہدایت کار مسعود بٹ: پنجابی فلموں کے معروف ہدایت مسعود بٹ نے بہ طور ہدایت کار فلم دو چور سے اپنے کیریئرکا آغاز کیا اور پھر ایک وقت ایسا کہ وہ سب سے زیادہ فلمیں ڈائریکٹ کر نے والے ہدایت کار بن گئے۔ ان کا یہ ریکارڈ آج بھی برقرار ہے۔90ءکی دھائی میں انہوں نے زیادہ تر پنجابی اور ڈبل ورژن فلمیں ڈائریکٹ کیں،ان کی فلموں میں کہانی سے زیادہ گلیمر ہوتا تھا۔ گانوں کی پیکچرائزنگ پر انہیں کمال حاصل تھا۔ تاہم ان کی چند اچھی فلموں میں میڈم رانی اور خاندان کا شمار ہوتا ہے۔ اپنے دورکی معروف فلمی اداکارہ ایشا ان کی بیگم ہیں جو اب گھریلو زندگی بسر کر رہی ہیں۔
دیبا: پاکستانی فلمی صنعت میں فلم اسٹار دیبا کا نام اور ان کا فن کبھی نہیں فراموش کیا جا سکتا ۔انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز بہ طور چائلڈ اسٹار بے بی راحیلہ کے نام سے فلم مس56سے کیا۔ فلم ’’چراغ جلتا رہا‘‘ میں وہ پہلی بار دیبا کے نام سے کاسٹ ہوئیں۔ اسی فلم سے محمد علی اور زیبا نے بھی اپنے فنی کیریئر کا آغاز کیا تھا، دیبا نے بہ طور ہیروئن کئی یادگار اور سپرہٹ فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے، جن میں شباب کیرانوی کی آئینہ، سنگدل، فسانہ دل، تم ہی ہو محبوب میرے، شامل ہیں۔
ان کی فلموں کی فہرست بہت طویل ہے۔ ہیروئن کے بعد وہ کیریکٹر ایکٹریس ہیں اور پنجابی فلموں میں کام کرتی رہیں۔ فلم کے بعد وہ ٹی وی پر بے حد کام یاب رہیں۔ حکومت پاکستان نے پچھلے سال ان کی فنی خدمات کے اعتراف میں انہیں پرائڈ آف پرفارمنس کے اعزاز سے نوازا ہے۔
موسیقار ’’الطاف حسین طافو‘‘ :کا شمار ایک بہترین طبلہ نواز کے طور پر ہوتا ہے، 1970میں ریلیز ہونے والی پنجابی فلم انورا میں پہلی بار بطور موسیقار ان کا نام آیا ۔فلم کے گانے سپر ہٹ ہوئے خاص طور پر ’’سن رے بلوری اکھاں والیاں‘‘ کی مقبولیت نے نیا ریکارڈ قائم کیا ۔حال ہی میں ان کا کمپوز کیا ہوا یہ مشہور گانا ’سوہنیا کوکا کولا پلا دے ‘‘ کوک اسٹوڈیو نے نئی طرز میں ریکارڈ کرایا۔ طافو نے اردو اور پنجابی فلموں کا سپرہٹ میوزک دیا۔ ان کے کمپوز کیے گئے گانے زیادہ تر کاروباری نقطہ نظر کے حامل رہے۔
بہار: انہوں نے اپنی فلمی کیریئر کا آغاز 1956 میں ریلیز ہونے والی پنجابی ’’چن ماہی‘‘ سے بہ طور ہیروئن کیا۔ اس دور میں انہوں نے چند پنجابی اور اردو فلموں میں لیڈنگز رولز کیے۔ 1962میں اردو فلموں کے معروف ہدایت کار اقبال یوسف کی شریکِ حیات بن کر وہ فلمی دنیا سے دور ہو گئیں۔ ان کے انتقال کے بعد1972میں دوبارہ فلموں میں آئیں اور اولڈ کیریکٹر کرنے لگیں، بہار کی ریلیز شدہ فلموں کی تعداد باقی خاتون اداکارائوں سے سب سے زیادہ ہے۔ بہار کا اصل نام کشور سلطانہ ہے۔