• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب گزشتہ دنوں ڈاکٹر امجد ثاقب نے اپنے امریکہ کے حالیہ دورے کے سفر نامے کا مسودہ ”اخوت کا سفر“ مجھے ارسال کیا اور کہا کہ اس پر چند لائنیں لکھ دیں تاکہ کتاب میں شامل کی جا سکیں تو بہت سے خوف میرے اردگرد دھمالیں ڈالنے لگے۔ پہلا خوف یہ تھا کہ لو جی! اب ایک اور کتاب کا مسودہ ڈھیروں کتابوں کے مسودے تلے اللہ جانے کب تک دبا رہے گا اور برادرم امجد ثاقب کا دل میری طرف سے میلا ہو جائے گا۔دوسرا خوف یہ کہ امجد ثاقب نہایت شریف النفس انسان ہیں، انہوں نے تو کبھی کسی مقامی حسینہ کو نظر اٹھا کر نہیں دیکھا اور اگر کبھی دیکھا بھی ہے تو کبھی ذکر نہیں کیا تو ایسے شخص نے سفر نامہ کیا لکھنا ہے جو دوران سفر ہزار بارہ سو معاشقوں کے ذکر کے بغیر ان دنوں مکمل ہی نہیں سمجھا جاتا… تیسرا اور زیادہ اصلی خوف یہ تھا کہ بلاشبہ امجد ثاقب مائیکرو فنانسنگ سکیم کے حوالے سے ایک بہت بڑا نام ہیں، بلکہ دنیا بھر میں بلاسود قرض متعارف کرانے والے وہ واحد شخص ہیں، لیکن سفر نامہ لکھنا ان کے بس کی بات نہیں، یہ تو ایسے ہی ہے جیسے میں فزکس پر کوئی کتاب لکھنے بیٹھ جاؤں۔
لیکن سچی بات یہ ہے کہ میرے دل میں جو تین خوف تھے، ان میں سے صرف دو صحیح نکلے، ایک یہ کہ میں نے لکھنے میں واقعی بہت دیر لگا دی تاہم میرا یہ اندیشہ جزوی طور پر صحیح نکلا کیونکہ اس دیری کی وجہ سے امجد ثاقب کے دل میں میرے لئے کوئی ملال پیدا نہیں ہوا بلکہ وہ یہی کہتے رہے کہ جب چاہے لکھیں لیکن کتاب پڑھ کر لکھیں، حالانکہ انہیں علم نہیں تھا کہ میں بغیر کتاب پڑھے زیادہ اچھا لکھتا ہوں اور جلد ہی لکھ لیتا ہوں۔ میرا دوسرا اندیشہ یہ تھا کہ حسینوں کے ذکر کئے بغیر بھی لکھنا کیسے لکھا جا سکتا ہے اور میرا یہ اندیشہ درست نکلا، کیسے درست نکلا؟ اس کا تذکرہ آگے چل کر ہو گا، البتہ میرا تیسرا خوف تو بالکل ہی بے بنیاد ثابت ہوا اور وہ خوف یہ تھا کہ مائیکرو فنانسنگ میں نام کمانے والے شخص کی شہرت اور مقام اپنی جگہ، لیکن کتاب لکھنا ایک الگ شعبہ ہے، مجھے کیا پتہ تھا کہ یہ شخص جس کا نام امجد ثاقب ہے، اس شعبے کا بھی چھپا رستم نکلے گا اور میرے سمیت بہت سوں کو حیران کر دے گا۔
تو صورتحال یہ ہے کہ ڈاکٹر امجد ثاقب امریکی یونیورسٹیوں میں مائیکرو فنانسنگ کے حوالے سے لیکچر دینے کیلئے مدعو کئے گئے تھے۔ سو انہوں نے رخت سفر باندھا اور امریکہ پہنچ گئے۔ امریکہ پہنچے تو انہیں ادھر ادھر سیممتاز پاکستانیوں کے پیغامات موصول ہونا شروع ہو گئے کہ ہماری طرف بھی تشریف لایئے۔ چنانچہ وہ مختلف شہروں میں تشریف لے گئے اور اپنی تنظیم ”اخوت“ کے اغراض و مقاصد کا مقام ہزاروں دلوں میں بناتے چلے گئے۔ یہ تو تھا دن کے سفر نامے کا ایک حصہ، جو ایک روٹین کا سفرنامہ تھا، مگر اصل”سفر نامہ“ اس سفرنامے کے اندر تھا جو خیال در خیال پھیلتا چلا گیا۔ یہ ایک حد درجہ حساس اور ملک و قوم سے عشق کی حد تک محبت رکھنے والے شخص کا سفر نامہ تھا، جو قدم قدم پر اپنے ملک کے کسی ایک پرابلم کے حوالے سے سوچتااور اس کی مختلف شکلیں بیان کرتا اور اس کے حل کے لئے راستے تلاش کرنا نظر آتا۔ وہ مسلسل سفر میں تھا اور اس کے خیالات بھی اس کے ہم سفر تھے، کہیں کہیں زمینی سفر پیچھے رہ جاتا اور خیالات کا سفر آگے نکلتا محسوس ہوتا اور یہ امجد ثاقب کے بیان کا کمال ہے کہ وہ قاری کو اس کے باوجود بور نہیں ہونے دیتا، حالانکہ ایک چرچ میں یہ نوٹس آویزاں تھا کہ ”پادری کے وعظ کے دوران خراٹے لینا از روئے شریعت سخت گناہ ہے“ مگر ہمارا ”پادری بات کرنے کا ہنر جانتا ہے، چنانچہ اس کا قاری ایک بچے کی طرح اس کی انگلی پکڑے اس کے ساتھ ساتھ چلتا رہتا ہے، وہ اس کے ساتھ امریکہ کے مختلف مقامات کی سیر بھی کرتا ہے اور اس کے خیالات بھی اتنی دلچسپی اور انہماک سے سنتا ہے جیسے وہ بچپن میں نانی اماں سے کہانیاں سنا کرتا تھا، سو وہ جو میں نے کہا تھا کہ حسینوں کے تذکرے کے بغیر سفرنامہ کیسے لکھا جا سکتا ہے تو امجد ثاقب نے یہ ”معجزہ“ کر دکھایا، تاہم میں چونکہ بنیادی طور پر ایک بدگمان شخص ہوں، لہٰذا میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ امریکہ میں جن حسینوں سے ان کا ٹاکرہ ضرور ہوا تاہم وہ ان کا ذکر گول کر گئے، بس ان سے انسپریشن حاصل کرتے رہے، میری اس بدگمانی کی مضبوط ترین دلیل یہ ہے کہ اتنا خوبصورت اور جامع سفر نامہ اس نوع کی انسپریشن کے بغیر لکھا ہی نہیں جا سکتا تھا۔
اب رہ گیا مائیکرو فنانسنگ میں نیک نام کمانے والے شخص کا کتاب لکھنا تو خبروی طور پر یہ کوئی بڑی بات نہیں، آپ براہ کرم میرے اس بیان کو میرے پچھلے بیان سے متضاد قرار دینے سے پہلے تیسری پوری بات سن لیں تو بات یہ ہے کہ میں نے کاشتکاروں، صنعتکاروں، سفارتکاروں اور کئی بے کاروں کی کتابیں بھی پڑھی ہیں لیکن ان کے مطالعہ کے دوران یہ احساس مسلسل دامن گیر رہتا ہے کہ ان بھائی صاحب نے آخر یہ پنگا کیوں لیا؟ اپنے شعبے میں انہوں نے جو عزت کمائی تھی ”دخل در معقولات“ کی وجہ سے یہ عزت بیٹھے بٹھائے گنوا بیٹھے، لیکن امجد ثاقب کی نثر پڑھتے ہوئے مجھے کئی مقامات پر یہ احساس ہوا کہ میں شاید کوئی خوبصورت انشائیہ پڑھ رہا ہوں، سادہ سلیس، پرمغز اور دل میں اتر جانے والی تحریر! ہم میں سے کتنے ہیں جو بظاہر ادب سے متعلق نہ ہوں لیکن اتنی خوبصورت تخلیقی نثر لکھنے پر قادر ہوں، یہ اللہ کی دین ہے اور اللہ کی دین بلاوجہ نہیں ہوتی، اس کے پیچھے ان لاکھوں غریبوں کی ”سفارش“ موجود ہے جن کے گھروں میں چولہا جلنے کا وسیلہ امجد ثاقب کی تنظیم بنی ہے!
اور اب آخر میں چند الفاظ ”اخوت“ کے بارے میں، اس کی تفصیل تو آپ ان کی کتاب میں پڑھ لیں گے۔ مختصر یہ کہ امجد ثاقب نے صرف دس ہزار روپے سے اس تنظیم کی بنیاد رکھی تھی، مقصد یہ تھا کہ بے روز گاروں کو یا کم وسیلہ لوگوں میں کلو دو کلو مچھلی تقسیم کرنے کی بجائے انہیں مچھلی پکڑنے کا سامان مہیا کیا جائے تاکہ ان کی انا مجروح کئے بغیر انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جائے۔ سواس تنظیم نے انہیں چھوٹے موٹے کاروبار کے لئے قرض حسنہ دینا شروع کیا اور اب تک یہ تنظیم اڑھائی ارب روپے مستحق افراد میں تقسیم کر چکی ہے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کبھی کسی نااہل شخص کے کاندھے پر ہاتھ رکھ ہی دیں تو وہ بیٹھ جاتا ہے بلکہ بیٹھ ہی جاتا ہے اور جب وہ کسی اہل شخص کے کاندھوں پر ہاتھ رکھتے ہیں تو وہ اس سے قوت حاصل کر کے پہلے سے زیادہ تن کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ امجد ثاقب کی اہلیت اور دیانت کے میاں صاحب بہت قائل ہیں چنانچہ اب وہ بھی اسی تنظیم کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ سب سے زیادہ خوشی کی بات ہے کہ جن غریب لوگوں کو بلاسود قرض دیئے گئے، ان کی واپسی کی شرح نہ صرف یہ کہ 99 اعشاریہ 99 فیصد ہے بلکہ جب یہ لوگ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جاتے ہیں تو تنظیم کے ڈونر بھی بن جاتے ہیں۔ کون کہتا ہے کہ ہم پاکستانی عظیم قوم نہیں ہیں؟ بنگلہ دیش میں یہ تجربہ کیا گیا لیکن وہاں سود کی شرح کا تقریباً 40 فیصد اور اخوت میں سود کی شرح زیرو فیصد ہے۔ بنگلہ دیش کے جنیئس کو نوبل پرائز مل گیا اور امجد ثاقب کو صرف میری اور آپ کی دعائیں۔ اللہ جانے ان دونوں میں سے کون زیادہ فائدے میں رہا؟ اگر آج کل کے ”بابے“ مجھے معاف فرمائیں تو یہ ”بابا“ امجد ثاقب ہے اور اس کی وجہ وہی ہے جو میں نے ابھی بیان کی ہے، لوگ انہیں دعائیں دیتے ہیں اور مجھے جب دعاؤں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے میں ان کے پاس جاتا ہوں ان کے سامنے دوزانوں بیٹھ جاتا ہوں اور کہتا ہوں ”بابا جی! میرے لئے دعا کریں“۔
تازہ ترین