• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی اسمبلی نے بدھ کو بچوں پر جسمانی تشدد کی ممانعت کا بل منظور کیا ہے جس کے تحت تمام قسم کے تعلیمی اداروں اور کام کرنے کی جگہوں پر بچوں کو جسمانی سزا دینے پر پابندی ہو گی۔ بل میں جسمانی سزا یا تشدد کی وضاحت بھی کر دی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ کسی بھی نوعیت کی تکلیف یا درد پہنچانا قابلِ سزا تصور کیا جائے گا۔ اس میں بچوں کو تھپڑ مارنا، چابک، چھڑی، جوتے، لکڑی یا چمچے سے پٹائی کرنا۔ ٹھڈا مارنا، جھنجوڑنا، بالوں سے پکڑنا، کان کھینچنا، تکلیف دہ حالت میں رکھنا، ابلتا پانی ڈالنا، جبری غذا کھلانا، توہین و تضحیک وغیرہ بھی شامل ہے جو قابلِ سزا جرم ہوگا۔ تشدد کے مرتکب شخص کو ملازمت کی معطلی، تنزلی، برخاستگی، جبری ریٹائرمنٹ جیسی سزا دی جا سکے گی اور وہ مستقبل میں بھی کسی ملازمت کے اہل نہیں ہو گا۔ اس سلسلے میں شکایات کے اندراج کیلئے مجسٹریٹ کا تقرر کیا جائے گا۔ اسکولوں میں پڑھائی میں کمزور، آپس میں لڑائی جھگڑا کرنے یا ڈسپلن کی خلاف ورزی پر بچوں کو ناروا سزائیں دینے کا چلن عرصہ دراز سے چلا آ رہا ہے۔ تعلیم و تدریس ایک مقدس اور مہذب پیشہ ہے۔ قابل ذمہ دار اور شفیق اساتذہ بچوں میں حصول علم کا شوق پیدا کرنے کیلئے تشدد نہیں ترغیب سے کام لیتے ہیں جہاں تک کام کی جگہوں کا تعلق ہے تو پہلے تو بچوں سے جبری مشقت لینا بھی جرم ہے لیکن مجبوری میں وہ کہیں کام کرتے ہیں تو ان سے محبت شفقت اور نرمی سے پیش آنا چاہئے۔ قومی اسمبلی نے جو بل منظور کیا ہے وہ فی الحال وفاقی دارالحکومت کیلئے ہے مگر اس کی افادیت کے پیش نظر اس کا اطلاق پورے ملک پر ہونا چاہئے۔ اسلام آباد میں زیادہ تر اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ رہتے ہیں جن کے بچوں پر ویسے بھی کسی کو ہاتھ اُٹھانے کی جرأت نہیں ہوتی۔ اصل مسئلہ کم ترقی یافتہ خصوصاً دیہی علاقوں کا ہے جہاں بچوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ اس لئے قانون کی گرفت ان علاقوں تک بڑھائی جانی چاہئے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 0092300464799

تازہ ترین