• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم میں سے ہر شخص کی یہ تمنا ہے کہ ترقی یافتہ جمہوری ممالک کی طرح ہمارے ملک میں بھی ایک مستحکم اور آئیڈیل جمہوری نظام مضبوطی سے قائم و دائم ہو جائے لیکن یہاں سب سے بڑی خرابی غیرآئینی ہتھکنڈوں کے استعمال کی صورت شروع دن سے چلی آ رہی ہے۔ یہ تسلسل سات دہائیاں گزرنے کے باوجود نہ صرف جوں کا توں ہے بلکہ جمہوریت نواز سیاستدانوں کو اگر کچھ مواقع میسر آئے بھی تو وہ محض شراکتِ اقتدار تک محدود رہے۔

اول تو یہاں انتخابات کے بلا رکاوٹ تسلسل کی روایت قائم نہ ہو سکی، دوم جب جب انتخابات منعقد ہوئے اکثر و بیشتر اُن کی شفافیت پر ایک سو ایک اعتراضات اٹھائے جاتے رہے ہیں، سوائے 1970کے انتخابات کے جو متحدہ پاکستان کے پہلے اور آخری براہِ راست انتخابات تھے۔ عرضِ مدعا یہ ہے کہ تب اس واحد موقع پر اگر مبینہ دھاندلی کا الزام قومی سطح پر نہیں ابھرا تھا توبھی قوم کو اس کا کیا فائدہ ہوا؟ماقبل محترمہ فاطمہ جناح اور ایوب خان کے بالواسطہ صدارتی انتخابات کو آج بھی کوئی منصفانہ یا دھاندلی سے پاک تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ جسے مابعد جب محترمہ بےنظیر اور میاں نواز شریف کے درمیان منافرت کا طوفان اٹھا رہا، سیاسی مخالفت کو زندگی موت کا مسئلہ بنا کر پیش کیا جاتا رہا تب 58-2B کا کلہاڑا چلاتے ہوئے، جب کسی کو رخصت کیا جاتا تو پھرتمام تر جھکائو دوسرے پلڑے میں ہو جاتا چنانچہ ان تمام تر انتخابات کی شفافیت ہمیشہ متنازع رہی۔ ابتداً طاقت ور حلقوں سے عوامی سطح پر اتنی دوری محسوس نہیں کی جاتی تھی جتنی آج ہے۔ بالخصوص 70کی دہائی میں یہاں سویلین آمریت کا جو تلخ تجربہ ہوا اس کے نتیجے میں وسیع تر دھاندلی کے خلاف زبردست تحریک چلی لیکن نتیجتاً بحالی جمہوریت توکیا ہوتی ہم ایک گڑھے سے دوسری کھائی میں جا گرے۔ آج ایک ہی مطالبہ ہے اور یہ درویش بھی تسلسل کے ساتھ اس پر لکھتا چلا آ رہا ہے کہ پاکستان میں ہندوستان کی طرح الیکشن کمیشن کو اتنا مضبوط بنا دیا جائے کہ تمام تر انتخابی عمل کے کسی بھی مرحلے پر کوئی طاقتور اثر انداز نہ ہو سکے۔

دیکھا گیا ہے کہ کسی بھی مسئلہ کے ماہرین جب اپنا کام دکھاتے ہیں تو اس میں ہاتھ کی صفائی یا مہارت اس خوبی سے استعمال ہوتی ہے کہتمام لغویات اس میں چھپ جاتی ہیں۔ 2018کے انتخابات میں جو مبینہ دھاندلی ہوئی،اس کی مہارت و چابکدستی سے شاید کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا لیکن اس کے بالمقابل 19؍فروری کو ڈسکہ ضلع سیالکوٹ کے حلقہ 75میں اناڑیوں کے ہاتھوں جو اودھم بپا ہوا ہے وہ اتنا افسوسناک ہے کہ کسی پردہ پوشی یا اخلاقیات کا بھی خیال نہیں رکھا گیا۔

آج الیکٹرونک یا سوشل میڈیا کے عروج میں جب ہر ہاتھ میں وڈیو کیمرہ ہے، آپ نے کیسے گمان کر لیا کہ ایک پریذائیڈنگ افسر انتخابی ووٹوں کے تھیلے لئے بھاگ رہا ہو تو وہ دسترس میں نہیں آئے گا یا 23پولنگ اسٹیشنوں سے انتخابی عملہ انتخابی ریکارڈ کے ساتھ رات گئے گھنٹوں غائب رہے تو یہ بات آسانی سے ہضم ہو جائے گی؟ اس سے شرمناک بات کیا ہو سکتی ہے کہ دیگر پولنگ اسٹیشنوں پر تو ڈالے گئے ووٹوں کی شرح 35فیصد ہو جبکہ ریکارڈ لے کر روپوش ہونے والے ووٹوں کی شرح 80یا 85فیصد قرار دے دی جائے۔ جس طرح فائرنگ اور تشدد کا استعمال ہوا ہے تاکہ لوگ خوف میں ووٹ ڈالنے نہ آ سکیں، انتہائی تشویشناک ہے۔ کئی پولنگ اسٹیشنوں پر گھنٹوں انتخابی پروسس رکا رہا، یہ سب منفی ذہنیت کے اناڑی پن کا ثبوت ہے۔ بھلے مانسو اگر دھاندلی کی تمنا بھی ہے تو کم از کم کچھ ظاہری بھرم ہی رہنے دو۔ اس سارے دھندے کے پیچھے اصل سہولت کار ہماری بیورو کریسی ہی دکھائی دیتی ہے۔

درویش کی ان مناجات پر جسے شک ہے وہ ایک مرتبہ پھر چیف الیکشن کمشنر کی تلخ نوائی پر نظر ڈال لے۔ جن کا استدلال ہے کہ میں نے رات گئے چیف سیکرٹری سے لے کر فلاں فلاں سرکاروں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر... آج متعلقہ ریٹرننگ افسر فرما رہے ہیں کہ ’’کچھ پریذائیڈنگ افسر بظاہر دھاندلی میں ملوث تھے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ کوئی شک نہیں کہ آئینی و قانونی لحاظ سے الیکشن کمیشن یا چیف الیکشن کمشنر کی بہت اتھارٹیز ہیں مگر کوئی سول ادارہ اُسے کس حد تک بےبس کر سکتا ہے، اس پر بحث ہونی چاہئے نیز سپریم جوڈیشری سے طاقت حاصل کئے بغیر کیا محض اختیارات لکھ دینے سے ہمارا الیکشن کمیشن اتنا طاقتور ہو سکتا ہے کہ حکومتی دھاندلی میں سہولت کار بننے والوں کو کماحقہ لگام ڈال سکے۔ محض یہی راستہ ہے جس پر چل کر انتخابی دھاندلیوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے بشرطیکہ باشعور میڈیا اور عوام کا بھرپور عوامی دبائو اس کی پشت پر ہو۔

تازہ ترین