• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہتے ہیں کہ شاہی گھرانے میں جب گوتم بدھ پیدا ہوئے تو جیوتشیوں نے خبر دار کیا کہ شہزادہ دنیا کے دکھ نہ دیکھنے پائے۔ دیکھے گا تو بادشاہی کو ٹھوکر مار کر اور سارے عیش و عشرت تیاگ کر ان محلوں سے نکل جائے گا۔سنا ہے کہ ہر جانب حکم ہوگیا کہ شہزادے کے آگے کوئی اپنے دکھ بیان نہ کرے۔یہی ہوا۔ لوگوں نے اپنے لب سی لئے۔ گوتم ذرا بڑے ہوئے تو شہر کی سیر کے لئے مچل گئے۔ ان کی ضد یہ تھی کہ عوام کو دیکھیں گے۔چنانچہ شاہی جلوس کی تیاریاں ہوئیں۔ عوام کو سمجھایا گیا کہ شہزادے کے جلوس کو جشن سمجھیں اور موج مستی کا جتنا مظاہرہ کرسکتے ہیں، کریں۔ یہی ہوا۔ راستے کے وہ سارے منظر ہٹادئیے گئے جن سے کسی تکلیف یا پریشانی کا اظہار ہوتا ہو۔یہاں تک کہ راہ میں لگے ہوئے جو پھول مرجھانے لگے تھے وہ بھی توڑ دئیے گئے۔اب شہزادہ شہر کی سیر کونکلا تو ساری رعیت محو رقص تھی اور لوگ گارہے تھے، ناچ رہے تھے۔شہزادے کا جلوس شہر سے ذرا باہر نکلا تو غضب ہوگیا۔ دنیا زمانے سے بے خبر ایک بزرگ، جن کی کمر دہری ہوچکی تھی،لاٹھی ٹیکتے ہوئے جلو س کی راہ میں آگئے۔ انہیں دیکھ کر گوتم حیران رہ گئے، جلوس روکا گیا۔ شہزادے کے حکم پر بزرگ کو بلایا گیا اور گوتم نے ان سے پوچھا کہ تم جھک کر کیا ڈھونڈ رہے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ ہر طرف دکھ ہی دکھ ہیں، میں سُکھ کی تلاش میں ہوں۔ اس پر سارا جشن اور جلوس دھرے کا دھرا رہ گیا۔ شہزادے نے کہا کہ یہ کیسی دنیا ہے۔ اس میں یہ دکھ کہاں سے آگئے۔ اس کے بعد کی داستان سے دنیا واقف ہے۔ گوتم بدھ رات کے سنّاٹے میں سب کو سوتا چھوڑ کر محل سے نکل گئے اور سچ اور حق کی تلاش میں دنیا تیاگ دی۔

سوچتا ہوں، بار بار سوچتا ہوں، گوتم بدھ آج کے زمانے میں ہوتے تو محل نہ چھوڑتے، دیوار سے ٹکرا کر اپنا سر پھوڑتے۔یہ جب سے انٹر نیٹ چلا ہے اور ساری دنیا اس پر اپنے دکھ سکھ کہنے لگی ہے، دکھ بھری داستانوں کی جھڑی سی لگ گئی ہے۔ شاید ہر شخص کو زبان مل گئی ہے۔ شاید راستے کے سارے ہی پھول مرجھا گئے ہیں، شاید ضعیف دنیا کی کمر اتنی دہری ہوگئی ہے کہ اسے آگے کا راستہ نظر آنا بند ہوگیا ہے۔ اب سنئے ان گنت کہانیوں میں سے صرف ایک چھوٹا سا قصہ۔

ضلع رحیم یار خان کے ایک قصبےسے ایک کچھ پڑھی لڑکی کا پیغام آیا کہ میرے بوڑھے باپ نے بیٹے کے علاج کے لئے پچاس ہزار روپے قرض لیا تھا اور سوچا تھا کہ گھر کی کوئی چیز بیچ کر قرض ادا کردیں گے لیکن جب ادائیگی کا وقت آیا تو سارا گھر چھان مارا، ایک بھی ایسی چیز نہ تھی جس کو بیچ کر پچاس ہزار روپے حاصل کئے جائیں۔ ادھر قرض دینے والے کا اشتعال بڑھتا گیا اور ایک روز وہ کچھ غنڈوں کو ساتھ لے کر حملہ آور ہوا اور کہا کہ میری رقم ادا کرو ورنہ تمہاری بیٹیوں کو اٹھا کر لے جاؤں گا۔ گھر میں چار بیٹیاں تھیں، انہوں نے خود کو ایک کمرے میں بند کرلیا۔ باہر شور شرابہ بڑھتا گیا تو بڑی بیٹی نے مجھے فیس بک پر پیغام بھیجا اور سارا ماجرا لکھ بھیجا۔ میں نے اسی فیس بُک پر اپنے احباب کو حالات سےبا خبر کیا۔ دنیا سے نیکی ابھی اٹھی نہیں ہے۔ مدد آگئی ۔بوڑھے کسان نے قرض اتارا اور سکھ کا سانس لیا۔ تب پتہ چلا کہ گھر میں کھانے کو کچھ نہیں ہے۔ بدحال گھرانے کو امدادی رقم بھیجی گئی۔ محلے کے دکان دار کو معلوم ہوگیا کہ رقم آرہی ہے، اس نے دھاوا بول کر پہلے اپنے چھ ہزار روپے وصول کر لئے۔ گھر کی چار بچیوں کو اسکول سے اٹھا لیا گیا تھا۔ ان کے واجبات ادا کرکے دوبارہ داخلہ دلایا گیا۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ بوڑھا کسان حوصلہ ہار گیا اور چل بسا۔ اس کے کفن دفن کے لئے گھر میں کچھ نہ تھا۔ اس کا بند وبست کیا گیا۔ پتہ چلا کہ بوڑھی ماں کو ذیا بیطس ہے اور گھریلو ٹوٹکوں سے علاج کیا جارہا ہے اور یہ علاج بے اثر ہورہا ہے۔ آخر ماں کو باقاعدہ ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا۔ اس کی حالت کچھ بہتر ہوئی ۔ اس دوران بچیوں کے اسکول کی فیس دوبارہ چڑھ گئی ۔ اس کابندوبست کیا جارہا تھا اور لڑکیوں کے لباس اور جوتیو ں کے لئے امدادی رقم جمع کی جارہی تھی تو یہ کھلا کہ بڑی بہن کے سینے پر پھوڑا نکل رہا ہے جس میں بہت درد ہے اور گھریلو ٹوٹکے سب آزمالئے گئے۔ اس سے کہا گیا کہ قصبے میں کوئی لیڈی ڈاکٹر ہے؟ اسے ڈاکٹروں کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ تھا دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ ڈاکٹر مل بھی جائے تو اس کی فیس اور نہایت مہنگی دواؤں کا خرچہ بھاری ہوگا۔ اب اس کا بندوبست بھی کیا جارہا ہے۔لڑکی شرمندگی او ر ندامت کے بوجھ تلے دبی جارہی ہے اور معافی پر معافی مانگے جاتی ہے۔

خواتین و حضرات! یہ اس دیہی علاقے کے ایک گھر اور ایک لڑکی کی داستان ہے۔ اُس لڑکی کا قصہ نہیں کہوں گا جو حاملہ تھی اور پیٹ میں بچہ مرگیا، اب فوری آپریشن کی ضرورت تھی، وہ اپنے اندر بچے کی لاش لئے گھر گھر قرض مانگتی پھری، کوئی تیار نہ ہوا۔ اور اس لڑکی کی داستان بھی نہیں کہوں گا جس کے پاؤں کی ایک انگلی میں زخم بنا۔ وہ ذیابیطس کا گھاؤ تھا جس میں گوشت گلنے لگتا ہے ۔ڈاکٹر نے کہا کہ انگلی کٹواؤ۔ اس میں دیر ہوگئی ۔ ڈاکٹر نے کہا کہ اب تو پاؤں کٹے گا۔ وہ کٹوایا گیا۔ پتہ چلا کہ ٹانگ کا گوشت بدستور گل رہا ہے اور ٹانگ کاٹنی پڑے گی۔ وہ بھی کٹوائی گئی۔ یہ ان گھروں کے قصے ہیں جو اپنے علاج پر سردرد کی چند گولیوں سے زیادہ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

زیادہ تفصیل میں نہیں جاؤں گا کیونکہ دنیا میں دکھوں کی ویسے ہی افراط ہے، ان کا رونا رونے سے نہ پہلے کبھی کچھ حاصل ہوا ہے اور نہ آج کے زمانے میں حاصل ہوگا۔ میں ان دو چار وارداتوں کا شاہد ہوں تو اندازہ ہوا ہے کہ لوگ کیوں کر اور کیسے زندہ ہیں اور اگر زندہ رہنا ہی ہے تو کب تک؟بے بسی اورلاچاری کی یہ زنجیر آسانی سے ٹوٹنے والی نہیں۔ زمامِ اختیار آج جن کے ہاتھوں میں ہے ان سے دکھوں کا مداوا ہوتا نظر نہیں آتا اور جو ان کے بعد اقتدار کی باگ ڈور سنبھالنے کی آس لگائے بیٹھے ہیں، سارے آثار کہہ رہے ہیں اور چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ یہ روگ ان کے بس کا نہیں۔

تو کیا علاقے میں کوئی ڈاکٹر نہیں؟

تازہ ترین