• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لندن ہائیکورٹ نے موتی والا کو امریکہ حوالگی کیخلاف اپیل کیلئے وقت دیدیا

لندن( مرتضیٰ علی شاہ ) کراچی کے تاجر جابر صدیق موتی والا کو مبینہ بھتہ خوری ، بلیک میلنگ اور اے کلاس منشیات کی درآمد کے الزامات کے تحت امریکہ حوالگی کے خلاف اپیل کرنے کے لئے وقت دے دیا گیا ہے ،موتی والا نے اپنے خلاف تمام الزامات سے انکار کیا ہے۔لندن ہائیکورٹ میں جج سر راس کرینسٹن نے پاکستانی شہری کو امریکی ڈیمانڈ کے خلاف اپیل دائر کرنے کی اجازت دے دی ، موتی والا بغیر سزا اور بغیر ضمانت تقریبا تین برسوں سے ہائی سیکیورٹی وانڈس ورتھ جیل میں قید ہیں۔اس نمائندے کو لندن ہائی کورٹ کے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ موتی والا کو دو بنیادوں پر اپیل کرنے کا حق دیا گیا ہے۔پہلی بنیاد انسانی حقوق برائے یورپی کنونشن (ای سی ایچ آر) کے آرٹیکل 3 کی خلاف ورزی ہے۔ موتی والا کے وکیلوں نے عدالت کے روبرو دلیل دی تھی کہ ویسٹ منسٹر مجسٹریٹس کورٹ میں حوالگی کے جج جان زانی نے پاکستانی شہری کی حوالگی کی اجازت کا حکم دیتے وقت ، امریکی جیل کی اصل صورتحال کو مدنظر نہیں رکھا جہاں موتی والا کو حوالگی کی صورت میں قید رکھا جائے گا۔ جج سر راس کرینسٹن نے فیصلہ دیا ہے کہ ہائی کورٹ کے ذریعہ ای سی ایچ آرکے آرٹیکل 3 کے تحت امریکی جیل کے بارے میں مزید نمائندگیوں پر غور کیا جانا چاہئے۔دوسری بنیاد ، جس پر اپیل کا حق دیا گیا ہے ، موتی والا کو خدشہ ہے کہ اگر اسے امریکہ کے حوالے کیا گیا تو امریکی پراسیکیوشن دہشت گردی کے الزامات یا دہشت گردی میں اضافے کو اس کے کیس میں شامل کردے گا۔ امریکی حکومت ویسٹ منسٹر مجسٹریٹ ’عدالت میں واضح طور پر یہ وعدہ کرنے میں ناکام رہی کہ اگر موتی والاکو امریکہ کے حوالے کیا گیا تو دہشت گردی کے الزامات میں کوئی اضافہ نہیں کیا جائے گا ۔جابر کے وکلاء نے عدالت کے روبرو استدلال کیا کہ ڈسٹرکٹ جج کا یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط تھا کہ امریکہ دہشت گردی کی بنیادوں کو بڑھانے کی کوشش نہیں کرے گا کیونکہ عدالت نے موتی والا کے خلاف امریکی قانونی چارہ جوئی کا صرف محدود مواد دیکھا تھا ، لہذا امریکہ حوالگی کی صورت میں اس کے آرٹیکل 6 کے حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔موتی والا نے ڈسٹرکٹ جج جان زانی کے حوالگی کے معاملے کو وزیر خارجہ کے پاس بھیجنے کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا جس میں کہاگیا تھا کہ جابر موتی والا کا امریکہ میں مجرمانہ استغاثہ کا سامنا کرنا ہیومن رائٹس ایکٹ 1998 کے مطابق ہے۔

تازہ ترین