ایڈیٹوریل بورڈ
ہمارے موبائل فونز، گیمز کنسولز اور کاروں کی چمکدار سطحوں کے نیچے چھپی کمپیوٹر چپس خاموشی سے کام کرتی ہیں، اپنی روزمرہ کی زندگی میں کام آنے والی ان ڈیوائسز کو چلانے کیلئے ہم ان پر مکمل انحصار کرتے ہیں۔وبائی مرض ان اہم اجزاء کی مانگ میں بے مثال اضافے کا باعث بنا ہے۔ لاک ڈاؤن نے کنزیومر الیکٹرانکس کی فروخت میں تیزی کا مظاہرہ کیا، جبکہ کارسازوں نےپروڈکشن کے اسٹارٹ رنز کو روکے رکھاتھا۔
جب گزشتہ سال کے دوسرے نصف حصے میں غیر متوقع طور پر گاڑیوں کی فروخت بحال ہوئی تو چپ مینوفیکچررز اس اضافے سے نمٹنے میں ناکام رہے۔پہلے سے پھیلی ہوئی سپلائی چین بروقت ردعمل دینے میں ناکام رہی ۔
موجودہ خلل نے کمپنیوں کو اپنی انوینٹری کی سطح کا دوبارہ جائزہ لینے پر مجبور کیا کہ آیا وہ اجزاء کا ایک بہت بڑا ذخیرہ رکھیں اور نیز یہ بھی کہ آیا وہ چند سپلائرز پر حد سے زیادہ انحصار کرنے لگے ہیں۔عالمی نوعیت کی وجہ سے نہیں بلکہ سپلائی چین میں مختلف مقامات پر دباؤ قلت کا سبب بنا۔بہرحال،انہوں نے سپلائی چین کے فاصلوں اور ایشیائی سپلائرز پر مغرب کے انحصار کے بارے میں لامحالہ خدشات کو تقویت بخشی ہے۔
جس طرح کووڈ19 کے ابتدائی ایام میں ضروری طبی سامان کی بحرانی صورتحال نے ملک کے اندر پیداوار کے مطالبے کا دوبارہ آغاز کردیا تھا، اسی طرح موجودہ چپ کی قلت نے بھی سیمی کنڈکٹرز کے مینوفیکچررز کو مغربی منڈیوں میں واپس لانے کے مطالبے کو تقویت بخشی۔
امریکا چپ کی عالمی صنعت پر غالب ہے لیکن اس کی زیادہ تر کمپنیاں اپنی مصنوعات کی تیاری کیلئے ایشیا میں فیبریکشن پلانٹس پر انحصار کرتی ہیں۔ ایپل اور ایمیزون جیسی بڑی کارپوریٹ کمپنیاں اپنی چند چپس خود تیار کرتی ہیں تاہم پھر بھی وہ ایشیائی مینوفیکچررز پر انحصار کرتے ہیں۔کار ساز کمپنیاں بھی اہم پرزوں کیلئے جنوبی کوریا کی سام سنگ اور تائیوان کی ٹی ایس ایم سی پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن اہم مصنوعات کے لئے سپلائی چین کا ایک جامع جائزہ لینے کا حکم دینے کیلئے تیار ہیں۔ اسی طرح یورپی سیاستدانوں نے ملکی صنعت میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کے لیے احتجاج کیا ہے۔یورپی کمیشن نے بلاک کی ملکی سیمی کنڈکٹر صنعت کو مستحکم کرنے اور سپلائی چین میں اس کی موجودگی کو بڑھانے کے لیے رکن ممالک کو تقویت دینے کے عہد کا اقدام شروع کیا ہے۔
عالمی ٹیکنالوجی سپلائی چینز کازیادہ سے زیادہ مقامی پیداوار کی جانب دوبارہ غور کرنا موجودہ سیاسی ماحول کا قدرتی ردعمل ہے۔جدید مصنوعات میں ایک اہم جزو کے طور پر اقتصادی اور قومی سلامتی دونوں کے لئے چپس اہم ہیں۔خود کفالت کی جستجو کے اپنے ہی خطرات ہیں۔پیداوار کی لاگت میں شاید اضافہ ہوجائے، اور خاص طور پر جب اعلیٰ ٹیکنالوجی میں غیر ملکی حریفوں کے چیلنجر بننے کی کوشش کی بات آئے تو یورپی ممالک کا ریکارڈ کافی ناہموار ہے۔ریاستی سبسڈی اور سمت نئی صنعتوں کی تشکیل دے سکتی ہے، لیکن اس کی وجہ سے کمزور اور غیر مؤثر بھی ہوسکتی ہیں۔
تاہم، قومی سلامتی کے تحفظ میں حکومتوں کو کردار ادا کرنا ہے۔فائیو جی، مصنوعی ذہانت اور سائبر سیکیورٹی جیسے شعبوں جن میں جدید چپس کی ضرورت ہوتی ہے ان شعبوں میں غیرملکی مینوفیکچررز پر انحصار قومی مفادات کے لئے حقیقی خطرہ بن سکتا ہے۔جیسا کہ کئی عشروں سے دفاعی صنعت کے کچھ حصوں کا معاملہ رہا ہے، سیاستدان ان حساس ٹیکنالوجیز کی تیاری اور ترقی پر کنٹرول اور قیادت کی صلاحیت کے ساتھ قومی کھلاڑی چاہیں گے۔یہ حساسیت کے پیچھے امریکا کی کمپیوٹر سسٹم ڈیزائن سروسز کمپنی کا برطانوی چپ ڈیزائنر آرم کو ٹیک اوور کرنے کیلئے برطانیہ کی چھان بین ہے۔
دنیا کے تین اہم تجارتی گروپوں امریکا، چین اور یورپی یونین کے مابین پائی جانے والی سیاسی اختلافات پیدا ہورہے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ سپلائی چین اور چپس کی تیاری کو علاقائی بنانے کا عمل ناگزیر ہے۔ لیکن عالمگیریت کے خاتمے کےعمل میں ملکی مصنوعات کے تحفظ کےمعاشی نظام کیلئے جلدی بازی اس کا حل نہیں ہے۔