کراچی ( رفیق مانگٹ) چیف جسٹس آف انڈیا سے اپنا عہدہ چھوڑنے اور معافی مانگنے کا مطالبہ کردیا گیا۔ یہ مطالبہ عصمت دری کے ایک کیس میں چیف جسٹس کی طرف سے ملزم کومتاثرہ لڑکی سے شادی کی پیش کش کے ریمارکس پر انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے سخت ردعمل میں کیا گیا۔5ہزار 200 شہریوں ،خواتین تحریکوں کے نمائندوں اور حقوق نسواں کی طرف سے بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ایس اے بوہڈے کو ایک کھلا خط لکھا گیا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنے عہدے سے سبکدوش ہو جائیں اور عدالت میں اپنے ریمارکس پر معافی مانگیں جہاں انہوں نے نابالغ لڑکی سے زیادتی کے ملزم سے سوال کیا کہ کیا وہ اس سے شادی کیلئے راضی ہے۔نے سماعت کے موقع پر ملزم (سرکاری ٹیکنیشن) سے کہا تھا کہ ʼاگر آپ (اس سے) شادی کرنا چاہتے ہیں تو ہم آپ کی مدد کر سکتے ہیں، اگر نہیں تو آپ اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے اور جیل چلے جائیں گے۔ ملزم پر چھوٹی عمر کی اسکول کی لڑکی کو تنگ کرنے ،باندھنے ،بار بار زیادتی،پٹرول ڈال کر آگ لگانے ،تیزاب پھینکنے اور بھائی کوہلاک کرنے کی دھمکیاں دینے کے الزامات ہیں،یہ جرم اس وقت سامنے آیا جب لڑکی نے خودکشی کی کوشش کی۔خط میں لکھاگیا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے سے یہ پیغام دیگر عدالتوں،ججوں،پولیس اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو بھیجا گیاکہ انصاف ہندوستانی خواتین کا آئینی حق نہیں،یہ صرف لڑکیوں اور خواتین کو خاموش کرنے کا باعث بنے گا۔عصمت دری کرنے والوں کو یہ پیغام بھیجا گیا کہ شادی عصمت دری کا لائسنس ہے اور یہ لائسنس حاصل کرنے سے زیادتی کرنے والا اپنے فعل کومکمل قانونی یا غیر قانونی حیثیت دے سکتا ہے۔خط میں کہا گیا کہ ʼزیادتی کا نشانہ بننے والی لڑکی سے اس کا ریپ کرنے والے شخص کی شادی کی تجویز دے کر چیف جسٹس آف انڈیا، آپ نے متاثرہ لڑکی کو خودکشی پر مجبور کرنے والے ملزم کے ہاتھوں ساری زندگی ریپ کروانے کی پیشکش کی۔ خط پر خواتین کے حقوق کیلئے سرگر شخصیات سمیت تقریباً پچاس سے زائد گروپس اور نیٹ ورک نے دستخط کیے جن میں آل انڈیا پروگریسو ویمن ایسوسی ایشن،نیشنل فیڈریشن آف انڈین ویمن، سہیلی،خواتین کے مظالم کے خلاف فورم اور بے باک کولیکٹو شامل ہیں۔ چیف جسٹس کو ایک اور معاملے پر بھی تنقید کا سامنا ہے جس میں انہوں نے پوچھا کہ قانوناً شادی شدہ مرد اور بیوی کے مابین ازدواجی تعلق کو عصمت دری کہا جاسکتا ہے یہاں تک کہ اگر شوہر ظالم ہو۔