کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو نیوز کے پروگرام کیپٹل ٹاک میں گفتگو کے دوران مسلم لیگ نون کے رہنما احسن اقبال نے کہا کہ عمران خان شیر ہوتے تو شکست پر اسمبلی توڑ کر انتخابات میں کودتے، وہ ایسا کبھی نہیں کرینگے کیونکہ وہ گیدڑ ہیں۔
نو منتخب سینیٹر وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے اس پر کہا کہ انہوں نے گھٹیا بات کی ہے، رہنما پیپلز پارٹی نو منتخب سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ یہ مقابلہ دو اشخاص یا پارٹیوں کے درمیان نہیں دو معاشی نظاموں کے درمیان تھا، آئی ایم ایف کے معاشی نظام سے تنگ لوگوں نے خود انحصاری کے نظام کا ساتھ دیا۔
پروگرام کے میزبان حامد میر نے کہا کہ وزیراعظم نے اپوزیشن کی قیادت کو غدار قرار دیا دوسری طرف الیکشن کمیشن پر بہت سے الزامات لگائے ہیں میں نے الزام کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ آج سے پہلے کسی وزیراعظم نے الیکشن کمیشن کے بارے میں ایسی باتیں نہیں کیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 225 کے تحت کسی بھی الیکشن تنازعےکو طے کرنے کے لیے ایک انتخابی عذرداری کسی ٹریبونل کے سامنے پیش کی جاتی ہے۔
اگر آئینی راستہ اختیار نہیں کر رہے اور آپ تقریر کے ذریعے وزیراعظم اس طرح الیکشن کمیشن پر تنقید کر رہا ہے تو اس پر آئینی ماہرین کہتے ہیں کہ الیکشن ایکٹ 2017 ءء ہے اس کے سیکشن 10 پر غور کرنے کی ضرورت ہے الیکشن کمیشن کے پاس پاور ہائیکورٹ کے ہیں اس پر توہین عدالت کے تحت سماعت ہوسکتی ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے اس حوالے سے کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان فری اینڈ فیئر الیکشن کرانے کا ذمہ دار ہوتا ہے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے میں بھی اس بات پر زور دیا گیا کہ الیکشن کو شفاف طریقے سے منعقد کیا جائے۔
وزیراعظم کا پہلے سے یہی موقف تھا بلکہ پی ڈی ایم کا بھی یہی موقف تھا چارٹر آف ڈیموکریسی میں اظہار کیا سینٹ الیکشن کے حوالے سے اوپن بیلٹ ہونا چاہیے۔
رہنما پیپلز پارٹی تاج حیدر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں سیکشن 168 ڈالا ہے جس میں کوئی بھی رشوت دے یا لے اس ایکٹ کے مطابق تین سال کی سزا ہوسکتی ہے اگر شواہد موجود ہیں کہ بیس آدمیوں نے رشوت لی تو پھر اس پر اکتفا کیوں ہوتا ہے کہ ہماری پارٹی سے چلے جائیں ان کو این آر او کیوں دیا جاتا ہے حالانکہ اس پر تین سال کی جیل ہے۔
یہ مقابلہ دو اشخاص یا دو پارٹیوں کے درمیان نہیں تھا دو معاشی نظاموں کے درمیان مقابلہ تھا جو لوگ آئی ایم ایف کے معاشی نظام سے تنگ ہیں انہوں نے خود انحصاری کے نظام کا ساتھ دیا ہے۔
پیپلز پارٹی کے دور میں حفیظ شیخ وزیر خزانہ تھے اس کے جواب میں کہا کہ آپ شخصیت کے حوالے سے بات کر رہے ہیں پالیسی کے حوالے سے نہیں انہوں نے وہ پالیساں چلانے کی کوشش کی ا سکے بعد یہ وہاں سے ہٹائے گئے ان کی سیٹ پر میں منتخب ہوا تھا دوسری دفعہ سینٹر۔
مسلم لیگ نون کے رہنما احسن اقبال نے کہا کہ وزیراعظم کو اصل غصہ یہ ہے کہ این اے 75 میں الیکشن کمیشن نے ان کی چوری پکڑ لی ہے اور جو دھاندلی کا ڈرامہ ڈسکہ میں کیا گیا اس کی مثال نہیں ملتی۔
یہ کہتے ہیں پیسہ چلا مجھے بتائیں کہاں پیسہ چلا میں آپ کو یہ بات فخر سے کہہ سکتا ہوں ہمارے پانچ سینٹر بنے ہیں پانچوں کے پانچ مڈل کلاس کے سینٹر ہیں اور ان کا کل خرچہ پچیس ہزار روپے ہوا ہے جو پارٹی ٹکٹ کے لیے ادا کیا ہے۔
پی ٹی آئی واحد پارٹی ہے جس کے خلاف اُن کے اپنے لوگوں نے گواہی دی کہ انہوں نے کروڑوں روپے کے ٹکٹ بیچے ہیں سندھ میں 35 کروڑ کا الزام لگا بلوچستان میں 70کروڑ کا الزام خود پی ٹی آئی نے لگایا جس شخص کو ٹکٹ دیا ڈرامہ یہ کیا کہ ہم نے ٹکٹ واپس لے لیا ہے بعد میں اس کو اپنے حلیف کا ٹکٹ دلا کر اس کو بھی جتوا دیا۔
احسن اقبال نے مزید کہا کہ علی حیدر کی جو ڈاکٹرائن ہے اس کے پیروکار نکلے سب سے پہلے وزیراعظم پھر شہریار آفریدی اور زرتاج گل یہ تو خود کابینہ ملی ہوئی تھی یہ نہیں چاہتے تھے حفیظ شیخ جیتیں، سینٹ کی دو سیٹیں تھیں اگر پیسہ چلتا تو اپوزیشن دونوں سیٹیں اٹھا لیتی خاتون کی سیٹ پر اس پر پی ٹی آئی جیت گئی حفیظ شیخ اس وجہ سے ہارے ان کے اپنے ایم این ایز نے معاشی پالیسز کے خلاف احتجاجی ووٹ دیا۔
کیا یہ درست نہیں ہے کہ ان کی پارٹی کے جن ایم این ایز نے یوسف گیلانی کوووٹ دیا ہے مسلم لیگ نون نے اگلے الیکشن میں پارٹی ٹکٹ دینے کا وعدہ کیا ہے اس کے جواب میں کہا کہ میں سیکرٹری جنرل ہوں میری معلومات میں ایسا کچھ نہیں ہے۔
آئین کا آرٹیکل 91 ہے اس کی سب کلاز سیون یہ کہتی ہے وزیراعظم صدر کی خوشنودی کے دوران عہدے پر فائز رہے گا لیکن صدر اس شق کے تحت اپنے اختیارات استعمال نہیں کرے گا تاوقتیکہ اسے یہ اطمینان نہ ہو کہ وزیراعظم کو قومی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت کا اعتمادحاصل نہیں ہے جس صور ت میں وہ قومی اسمبلی کو طلب کرے گا، اور وزیراعظم کو اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا حکم دے گا۔
اس پر احسن اقبال نے کہا کہ اپوزیشن بات کر رہی تھی کہ وہ اکثریت کا اعتماد کھو بیٹھے ہیں انہیں استعفیٰ دینا چاہیے انہوں نے قومی اسمبلی کا اجلاس آرٹیکل 917 کے تحت کیا ہے یہ اس صورت میں طلب کیا جاتا ہے جب صدر کو یقین ہوجائے کہ وزیراعظم اسمبلی کے اراکین کی اکثریت کا اعتماد کھو چکے ہیں۔
لہٰذا اگر صدر اس شق کے تحت بلا رہے ہیں تو صدر کو یقین ہوگیا ہے کہ وزیراعظم اراکین کی اکثریت کا اعتماد کھو چکے ہیں اسی لیے عمران خان کا فرض ہے کہ وہ استعفیٰ دیں۔ہمارا فوکس لانگ مارچ ہے 26 کو کراچی سے اس کا آغاز ہوگا30مارچ کو اسلام آباد میں دھرنا دیں گے اور وزیراعظم کا استعفیٰ کا مطالبہ ہوگا۔
علی حیدر گیلانی کی مذمت کی جارہی ہے پی ٹی آئی کے ایم این ایز کی نہیں کی جارہی ، اس حوالے سے شبلی فراز نے کہا کہ جہاں تک ویڈیو کا تعلق ہے اس بات پر یہ طے ہوگیا ہے کہ سارے پاکستان نے دیکھ لیا کہ کل سات ووٹ مسترد ہوئے اور فیصلہ بھی اس پر ہوا ، یہ لوگ جھوٹ بولنے میں بہت ماہر ہیں اور یہ مختلف شوشے چھوڑتے رہتے ہیں ۔
قادر کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ ہوا پارٹی نے ری ایکٹ کیا وزیراعظم نے ورکرز کی آواز کو سنا پھر چینج کر دیا اگر پارٹی مجھے ٹکٹ دیتی ہے یہ عمران خان کی مہربانی ہے اگر مجھے پارٹی کا ٹکٹ نہیں ملتا تو اس کا اپنا حق ہے وہ آزاد کھڑا ہوتا ہے کہیں جاتا ہے اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ سندھ میں دو ہی ٹکٹ اور ہزاروں لوگ خواہشمند ہوتے ہیں جن کو ٹکٹ نہیں ملے گا وہ کسی بھی قسم کی بات کرسکتے ہیں۔