• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی ٹی آئی حکومت نے چند ماہ قبل جب سینیٹ الیکشن خفیہ کی بجائے اوپن بیلٹ کے تحت کرانے کا اعلان کیا تھا اسی وقت سیاسی، سماجی و معاشی حلقوں میں جوڑ توڑ کا عمل شروع ہوا، مختلف قیاس آرائیوں نے جنم لیا۔ الیکشن کمیشن کی مقرر کردہ تاریخ 3مارچ پر ہی بغیر کسی مزاحمت کے الیکشن ہو گئے لیکن اس کے نتائج پی ٹی آئی کی توقعات کے بر عکس آئے جس کے نتیجے میں آج جو صورتحال درپیش ہے، دور اندیش افراد اسے پہلے سے بھانپ چکے تھے۔ الیکشن کے پیش منظر اور پس منظر حالات و واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے جمعرات کے روز قوم سے نشری خطاب میں اپنے اتحادیوں پر براہِ راست جبکہ اپوزیشن پر بالواسطہ طور پر واضح کیا کہ وہ ہفتے کے روز (آج) ان نتائج کی روشنی میں اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے پارلیمنٹ آئیں گے۔ اگر کسی کا دل کرتا ہے تو مجھ پر اعتماد کا اظہار کرے اگر ایسا ممکن نہیں تو کھل کر مخالفت کرے، میں ان لوگوں کی قدر کروں گا۔ یہ الفاظ ان کے اصولی مؤقف کے ترجمان ہیں اور اپوزیشن کے مطالبے سے پہلے ہی انہوں نے خود کو تحریک عدم اعتماد کیلئے پیش کرنے کا جرأت مندانہ فیصلہ کر لیا۔ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں کہا کہ اگر میں اعتماد حاصل نہ کر سکا اور اپوزیشن میں نہ بھی بیٹھ سکا تو پارلیمنٹ سے باہر رہ کر بھی اپنی جدوجہد جاری رکھوں گا اور ملک کا پیسہ لوٹنے اور جمہوریت کے نام پر بکنے والوں اور چوروں کو نہیں چھوڑوں گا۔ جب تک زندہ ہوں ملک کے غداروں کا مقابلہ کرتا رہوں گا۔ وزیراعظم کی یہ بات اس امر کی غماز ہے کہ وہ اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کیلئے کسی رکن پر دباؤ ڈالنے پر یقین نہیں رکھتے۔ وزیراعظم نے اس موقع پر اپوزیشن پر تنقید تو کی مگر الیکشن کمیشن کو بھی چارج شیٹ کرتے ہوئے اسے ووٹوں کی خریدوفروخت کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے سینیٹ انتخابات کیلئے خفیہ بیلٹ کی سفارش کرکے جمہوریت کو نقصان پہنچایا ہے اور ہمارے بکنے والے 16ارکان کو منظر عام پر آنے سے بچالیا حالانکہ 15سو بیلٹ پیپرز پر بار کوڈ لگانے میں کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ ملک سے کرپشن صرف قوانین بنانے سے ختم نہیں ہو گی اس کیلئے پوری قوم کو جدوجہد کرنا ہوگی اور جب تک معاشرہ ذمہ داری نہ لے میں اکیلا کچھ نہیں کر سکتا۔ وزیراعظم نے کہا کہ سینیٹ الیکشن میں خفیہ رائے شماری ختم کرنے کیلئے ہم پارلیمنٹ میں قانون لائے لیکن اپوزیشن سے حمایت نہ ملی تو ہم یہ معاملہ سپریم کورٹ لے کر گئے، اسی دوران ووٹ خریدنے اور بیچنے کی وڈیو سامنے آگئی، معلوم نہیں کہ الیکشن کمیشن نے خفیہ بیلٹ کی کیوں مخالفت کی۔ وزیراعظم کی اس تقریر پر مریم نواز نے ردِعمل دیا کہ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری وزیراعظم عمران خان نے خود کی تھی لہٰذا اپنی شکست کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالنے کی بجائے انہیں اسے تسلیم کرنا چاہئے۔ بلاول بھٹو زرداری کا اس ضمن میں خیال ہے کہ سینیٹ میں وفاداریاں تبدیل کرنے والے ارکان کیونکر اعتماد کا ووٹ دیں گے۔ قوم سے خطاب کی روشنی میں وزیراعظم عمران خان نے جو اپنا آئندہ کا پروگرام دیا ہے یہ بلاشبہ ان کا سیاسی کے ساتھ ساتھ آئینی اور اخلاقی کردار بھی ہے جو انہوں نے بہ احسن نبھایا اور کسی بھی ممکنہ پیچیدہ صورتحال کے پیش نظر آئین کے آرٹیکل 91سیون کی پاسداری بھی ہے جس کی رو سے آج قومی اسمبلی کا جو اجلاس بلایا گیا ہے اس ضمن میں یہ خیال رہے کہ پارلیمان کے وقار اور اس کی بالا دستی پر آنچ نہیں آنی چاہئے تاہم یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر سینیٹ الیکشن میں اس بار بھی پیسے کا کھیل ہوا ہے تو ایسا کب تک ہوگا؟

تازہ ترین