پاکستان کے معاشی حب، کراچی کے جنوب مشرق میں تقریباً35 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک ایسی بستی ہے جہاں کے لوگ آج بھی ازمنہٰ وسطیٰ جیسے ماحول میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ یہاں اسکولوں میں داخلے کے وقت رجسٹر کے اندر باپ کی بجائے ماں کے نام کا اندراج ہوتا ہے۔ اس گاؤں میں بچے کی ماں کے نام سے شناخت کا رواج اس لیے بھی عام ہے کہ یہاں کے بیشتر ماہی گیرشکار کے دوران سمندر کی لہروں کی بھینٹ چڑھ گئے یا پڑوسی ملک میں قید ہیں، جس کے بعد گھر کی دیکھ بھال کا سارا بوجھ خواتین کو اٹھانا پڑا ہے۔ اس لیے ان کے بچے بھی اپنی ماؤں کے ناموں سے جانے جاتے ہیں اور اس بات کو بستی کے لوگ معیوب نہیں سمجھتے۔
یہ ذکر ہے بحیرہ عرب کے ساحل پرتقریباً تین سو سال قدیم گاؤں ، ’’ریڑھی میاں گوٹھ‘‘ کا، جس میں ماہی گیروں کے خاندان کئی نسلوں سے آبادہیں۔اس کا نام’’ ریڑھی میاں گوٹھ‘‘ کیوں پڑا، اس کے بارے میںبستی کے لوگ بھی بتانے سے قاصر ہیں جب کہ کر اچی کے زیادہ تر لوگ اس کے وجود سےہی لاعلم ہیں کیوں کہ یہ تین اطراف سے پہاڑیوں سے گھری ہوئی ہےاور اس تک پہنچنے کا راستہ بھی انتہائی دشوار گزار ہے۔ ریڑھی گوٹھ تک جانے کے لیے 6 کلومیٹر سے زائد ٹوٹے پھوٹے ، کچے،پتھریلے راستے ، پہاڑی پگڈنڈیوں پر سفر کرنا پڑتا ہے، جب جا کر اس گندی سی بستی کے آثار نظر آتے ہیں۔ اس میں مٹی اورپکی اینٹوں سے چھوٹے چھوٹے کابک نماگھر بنے ہوئے ہیں، ان پر کھپریل، چٹائی اور ٹین کی چھتیں پڑی ہوئی ہیں جن کے باسی، پتھر کے زمانے کے دور جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔
1971ء میں اس کا نام اس وقت سنا گیا تھا جب پاک بھارت جنگ کے ووران بھارتی طیاروں نے گاؤں پر بمباری کی تھی ، دو بم سمندر ی دلدل میں دھنس گئے تھے جب کہ ایک بم کے پھٹنے سے تقریباً ایک درجن گھر تباہ ہوگئے اور دس افراد شہید ہوئے تھے۔ مچھیروں کی یہ بستی تین طرف سے پہاڑی چٹانوں میں گھری ہوئی ہے جب کہ ایک طرف سمندر ہے۔ اس کے اطراف پہاڑی بلندیوں تک گھاس پھونس کی جھونپڑیاں بنی ہوئی ہیں جن کے باسیوں کو جدید شہر کے قریب رہنے کے باوجود جدید دور کی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔
ریڑھی میاں گوٹھ تک پہنچنے کے لیے دو راستے ہیں، ایک راستہ داؤد چورنگی سے اونچی نیچی، بل کھاتی پہاڑی سڑک سے ہوتاہوا ساحل سمندرکی جانب آتا ہے۔ چند بزرگوں نے بتایا کہ یہاں ایک قدیم غار ہے جس میں کسی دور میں ایک بزرگ عبادت کرتے تھے، جن کے نام سے یہ گاؤں موسوم ہے۔ دوسرا راستہ بھینس کالونی ،سبزی منڈی کے ساتھ اسپتال چورنگی سے شروع ہوتا ہے اور پختون و ہزارہ وال کی آبادی کی تنگ گلیوں اور پتھریلے راستے سے گزرتا ہوا مچھیروں کے اس قدیم گوٹھ تک آتا ہے۔ ریڑھی گوٹھ میں تقریباً 35ہزار نفوس آباد ہیں۔
یہاں پہنچ کر سب سے پہلےنسوانی ہمت، عزم و استقلال کے مظاہیر نظر آتے ہیں جنہیں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔کیوں کہ بڑے شہروں میں، جہاں معاشرہ تعلیم یافتہ ہے وہاں اگر عورتیں دکان یا اسٹال چلائیں تو معیوب نہیں سمجھا جاتا، لیکن ماہی گیروں کی پسماندہ بستی جہاں ہر طرف جہالت کا راج ہو، منشیات کھلے عام فروخت ہورہی ہو، وہاں عورتوں کا ہوٹل یا دکان چلانا باعث حیرت ہے۔ گوٹھ کی تقریباً 45 خواتین ایسی ہیں جنہیں اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے گھر سے باہر نکلنا پڑا اور محنت مزدوری کی کمائی میں سے کچھ رقم پس انداز کرکے دکان یاہوٹل کھولے۔ ایسے15ہوٹل ہیں جو ساحل سمندر اور بستی کے اندرونی حصوں میں قائم ہیں جب کہ دیگر خواتین دکانوں پر خرید و فروخت کا کاروبار کرتی ہیں۔
ان میں سے اکثر خواتین کے شوہر نشے کی لت میں مبتلا ہوکراپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے قاصر ہیں۔ کچھ بیوہ ہیں جب کہ بیشتر کے شوہر مچھلیوں کے شکار کے لیے گئے لیکن سمندر میں راستہ بھٹک کر بھارتی پولیس اور میری ٹائم ایجنسی کے ہاتھ لگ گئے جنہوں نے انہیں گرفتار کرکےجیلوں میں ڈال دیا اور وہ طویل عرصے سے وہاں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں۔ ان کی بیویوں نے اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے پہلے توجھینگوں کی صفائی کا کام شروع کیا لیکن اس سے اتنی آمدنی نہیں ہوتی تھی کہ وہ انہیں دو وقت کی روٹی کھلا سکیں۔کشتیوں کے گھاٹ کے قریب سب سے پہلے ہوٹل کھولنے کی ہمت زلیخا نامی خاتون نے کی۔
اس کا شوہر عرصۂ دراز سے بھارت کی قید میں ہے اور اس کی رہائی کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ بستی کے لوگوں نے بتایا کہ جب زلیخا کا شوہر گرفتار ہوا تو اس نے اس کا کئی مہینے تک انتظار کیا، لیکن وہ واپس نہیں آیا۔ اس کے گھر میں جو بھی جمع پونجی تھی وہ ختم ہوگئی اور بچےفاقے کرنے لگے۔ اس نے لوگوں سے مدد کی درخواست کی لیکن کسی نے دست تعاون دراز نہیں کیا۔ وہ کام کی تلاش میں نکلی لیکن ان پڑھ ہونے کی وجہ سے اسے ڈھنگ کا روزگار نہیں ملا۔ ایک جگہ جھینگے صاف کرنے کا کام ملا بھی لیکن اس کی مزدوری بہت کم تھی جس سے بچوں کو دو وقت کی روٹی بھی بمشکل کھلا پاتی تھی۔
بستی کے ایک خدا ترس شخص سے کچھ رقم اُدھار لے کراپنے شوہر کی خریدی ہوئی زمین پرچائے کا ہوٹل کھولا۔ شروع شروع میں علاقے کی خواتین و مردوں نے اس کا بہت مذاق اڑایا۔ اوباش قسم کے نوجوان آکراسے پریشان کرتے تھے لیکن اس نے ان کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈنڈا رکھا اور مرد بن کر ان کا مقابلہ کیا، تب جاکے ان سےجان چھوٹی۔ اس سے ذرا فاصلے پر ایک اور ہوٹل ہے جسے عائشہ نامی خاتون اپنی بیٹیوں کے ساتھ چلاتی ہے۔ اس کے علاوہ سموسے، پکوڑے اور آلو کی چاٹ کے اسٹال بھی ہیں جو بانسوں پر چادریں باندھ کر بنائے گئے ہیں۔
جیٹی پر کشتی سازی اور پرانی کشتیوں کی مرمت کے کارخانے قائم ہیں ۔ گھاٹ پرپلیٹ فارم بنا ہوا جس پر سے لوگ اتر کر کشتیوں میں بیٹھتے ہیں۔ یہاںدور دور تک مچھیروںکی کشتیاں نظرآتی ہیں، جو شکار کے مخصوص دنوں کے علاوہ یہاں آنے والے لوگوں کی سیروتفریح کے لیےکرائے پر بھی دی جاتی ہیں۔ ٹھیکیداروں کی اجارہ داری کی وجہ سے ماہی گیروں کا روزگار متاثر ہوا ہے۔ یہ بات بھی دل چسپ ہے کہ مچھیروں کی بستی ہونے کے باوجود یہاں مچھلی بازار میں شہر کے نرخوں کے برابر مچھلی فروخت ہوتی ہے۔
ایک مچھیرے نے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ جب چاند کی ابتدائی تاریخیں ہوتی ہیں تو سمندر بھی چڑھا ہوتا ہے جس کی وجہ سے زیادہ شکار ہاتھ آتا ہے لیکن شہر کی مارکیٹوں تک آمدورفت میں دشواریوں اور مارکیٹ تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے آڑھتی ہم سے اونے پونے داموں پر مچھلیاں خرید کر شہروں میں مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں، باقی بچنے والی مچھلیاں مقامی مارکیٹ میں فروخت کی جاتی ہیں۔ اس نے بتایا کہ ماہی گیر مہینے میں پندرہ روز شکار کرتے ہیں اور باقی کے پندرہ دن گھر میں بیٹھ کر گزارتے ہیں۔گزشتہ دس سال سے ہمارا روزگار بہت زیادہ متاثر ہوا ہے۔
ساحل سمندرسے چند کلومیٹر کے فاصلے پر لانڈھی، کورنگی انڈسٹریل زون ہے جس کی فیکٹریوں کا فضلہ اور کیمیاوی مادہ سمندر میں بہایاجاتا ہے جو آبی حیات کے خاتمے کا سبب بن رہا ہے۔مچھیروں کے مطابق ایک عشرے قبل ہمہ اقسام کی مچھلیاں ریڑھی گوٹھ کے ساحل پر تیرتی ہوئی آجاتی تھیں، مگراب ان کی تلاش میں سمندر کے اندر میلوں دور تک جانا پڑتا ہے لیکن پھر بھی شکار نہیں لگتا۔
اس صورت حال کی وجہ سے بستی کے لوگ اپنا آبائی پیشہ ترک کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔ ریڑھی گوٹھ میں تنگ اور غلیظ گلیوں میں چھوٹے چھوٹے بازار بنے ہوئے ہیں جن میں سبزی ، گوشت سمیت دیگر اشیائے خورونوش فروخت ہوتی ہیں۔چند لوگوں نے مچھلی کے جال اور ماہی گیری میں استعمال ہونے والے اوزار بناکر ان کی فروخت کا پیشہ اپنا لیا ہے۔
ساحل پر منشیات فروش سرگرم ہیںجو ان کے بچوں کی رگوں میں نشہ آور اشیاء کا زہر سرایت کررہے ہیں جب کہ سمندر میں شکار کے دوران کی بحری قزاقوں سے بھی مڈبھیڑ ہوتی ہے جو ان کی کشتیوں پر حملہ کرکے ان کا سارا شکارہڑپ کرنے کے علاوہ رقم سے بھی محروم کردیتے ہیں۔ بعض اوقات سمندر میں جوار بھاٹا بھی بستی کے باسیوں کے لیے بربادی کا سبب بنتا ہے۔ جب لہریں بلند ہوتی ہیں تو سمندر کا پانی گھروں تک آجاتا ہے۔ چند سال قبل سمندری طوفان کی وجہ سے ساحل پر بنے درجنوں گھر پانی میں ڈوب گئے تھےاور لوگوں نے اپنے اہل و عیال کے ساتھ اونچے مقامات پر پناہ لے کر اپنی جانیں بچائی تھیں۔
کچھ عشرے قبل تک یہاں بچوں اور بچیوں کوپڑھانا معیوب سمجھا جاتا تھا لیکن گزشتہ ڈیڑھ عشرے سے بعض سماجی تنظیموں کی کاوش سے لوگوں میں تعلیم کا رجحان بڑھا ہے۔ اس وقت 500سے1000کی تعداد میں بچے اور بچیاں،بستی میں قائم اسکولوں میں زیرتعلیم ہیں۔ کئی بچوں نے میٹرک، بی اے تک تعلیم مکمل کرلی ہے اور وہ انہی اسکولوں میں درس و تدریس کا فریضہ انجام دے رہے جب کہ ایک بچی پرائیوٹ ایم اے کررہی ہے۔
تنگ و تاریک اورغلیظ گلیوں میں بچوں کو نہ تو کھیل کود کی سہولت ہے اور نہ ہی قرب وجوار میں کوئی پارک ہے ۔کسی مخیر شخص نے ایک دیوار کے ساتھ لوہے کا جھولا رکھوا دیا ہے جس پر علاقے بھر کے بچے کھیلتے ہیں، یہی ان کی واحد تفریح ہے۔