’مغالطہ پاکستان ‘ میں ہمیں پڑھایا گیا تھا کہ کانگریس ہندوؤں کی جماعت ہے ، اِس جماعت میں متعصب ہندو بھرے ہیں جو مسلمانوں کو شودر سمجھتے ہیں اور مکار اور سازشی ہندوؤں کا یہ ٹولہ انگریزوں سے ساز باز کرکے ہندوستان کے مسلمانوں کو اپنا غلام بنانا چاہتا ہے ۔اچھے بچوں کی طرح ہم نے یہ باتیں رَٹ لیں ۔مگر اِس دوران کسی نے ہمیں یہ نہیں بتایا کہ مولانا محمد علی جوہر اور ابوالکلام آزاد جیسے جید مسلم علما ہندوؤں کی اُس کانگریس پارٹی کے صدر بھی رہے ہیں ۔ بڑے ہوکرجب ہمیں یہ بات پتا چلی تو جواب میں ہمیں قائد اعظم کا وہ مبینہ جملہ سنا کر خاموش کروادیا گیا کہ ’مولانا آزاد کانگریس کے شو بوائے ہیں ۔‘ اِس کے بعد اب کس میں ہمت تھی کہ قائد کے بیان کو چیلنج کرتا۔چپ ہو گئے ۔حقیقت کیا تھی، یہ ہمیں ابولکلام آزاد نے سمجھایا!
گزشتہ برس قفل بندی کے دوران جہاں کچھ کتابوں کے مطالعے کا وقت ملا وہاں جناب خورشید ندیم کی معیت میںقران کو بھی ترجمے کے ساتھ دوبارہ پڑھنے کا موقع ملا ، جس ترجمے نے مجھے مسحور کیا وہ ابولکلام آزاد کا ’ترجمان القران ‘تھا۔ویسے تو میں پہلے ہی مولانا کی عالیشان تحریرکا گرویدہ تھا مگر ’ترجمان القران ‘ نے تو گویا مجھے مبہوت ہی کردیا ،ادب کی جو چاشنی ابولکلام کے ترجمے میں ہے وہ شاید کسی اور میں نہیں ۔(اگر یہ واقعہ مجھے ٹھیک سے یاد ہے تو )ایک مرتبہ مولانا مسجد سے نماز ادا کرکے نکل رہے تھے کہ کسی شخص نے انہیں پکارا،مڑ کر دیکھا تو کوئی اجنبی تھا ،اُس نے کہا کہ وہ کسی مذہبی معاملے پر الجھن کا شکار ہے،مولانا نے اُس کی رہنمائی کر دی اور وہ شخص واپس چلا گیا۔مگر بعد میں انہیں خیال آیا کہ انہیں قران کا ترجمہ لکھنا چاہیے تاکہ مسلمانوں کے ذہنوں میں جو الجھنیں ہیں وہ رفع ہو جائیں ۔گویا ایک اجنبی شخص کی وجہ سے ابولکلام آزاد نے قران کے ترجمے کا کام شروع کیا ۔ مگر بدقسمتی سے یہ کام مکمل نہ ہو سکا کیونکہ انگریز سرکار نے مولانا کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا اور پھر ’ثبوت ‘کی تلاش میں ان کے گھر پر چھاپے مارے اور جب کچھ نہیں ملا تو بقول مولانا’’قلمی مسودات کا تمام ذخیرہ اٹھا لے گئے،حتّی ٰ کہ ترجمان القران کی تمام لکھی ہوئی کاپیاں بھی توڑ مروڑ کر مسودا ت کے ڈھیر میں ملا دیں۔‘‘
’زمزمہ محبت ‘ میں جہاں مولانا آزاد کے مختلف مغربی افسانوں کے تراجم شامل ہیں وہاں ان کا اپنا بھی ایک ’افسانہ نما‘ شامل ہے جس کا نام ’چڑیا چڑے کی کہانی‘ ہے۔ میں نے اسے افسانہ نما اِس لیے کہا کہ میرے نزدیک یہ اُن روایتی معنوں میں افسانہ نہیں ہے بلکہ یہ مولانا کے اسیری کے دنوں کا حال ہے جب وہ انگریز کی قید میں تھے ۔ جو کمرے اُ ن کے تصرف میں تھے وہاں چڑیوں نے گھونسلہ بنا رکھا تھا، مولانا نے چڑیا چڑے کے ساتھ جو وقت گزارا اسی کو کہانی کی شکل میں یوں بیان کر دیا کہ بندہ دم بخود رہ جاتا ہے ۔یہ قصہ امثال اور اشعار ، واقعات او ر تشبیہات سے لبریز ہے ۔ بیدل ، غالب، حافظ،سعدی، فردوسی، نظامی، نظیری کے شعر جا بجا صفحات پر پھیلے نظر آتے ہیں ،کہیں کہیں تو اِن اشعار کی وجہ سے تحریر بوجھل بھی محسوس ہوتی ہے مگر اِس بات میں دو رائے نہیں کہ ایسی مرصع نثر صرف ابولکلام ہی لکھ سکتے تھے اور امام الھند کا لقب اُن کے علاوہ کسی اور کو زیبا نہیں۔ بے شک مولانا کہیں کہیں مشکل الفاظ استعمال کرتے ہیں مگر یہ الفاظ تحریر کی روانی میں خلل نہیں ڈالتے بلکہ انہیں پڑھ کر یوں لگتا ہے جیسے ان الفاظ کا اِس سے موزوں استعمال ممکن نہیں تھا۔ مولانا کی نثر پر البتہ یہ تنقید کی جاتی ہے کہ بسا اوقات اُن کی نثر اُس دلہن کی طرح لگتی ہے جسے بہت زیادہ لیپا پوتی کرکے مصنوعی طور پر سنوارا گیا ہو۔ یوسفی صاحب نے بھی اپنے کسی مضمون میں ابولکلام آزاد کی نثر پر چوٹ کی ہے جسے پڑھ کر یوں لگتا ہے جیسے یوسفی صاحب کو اِس بات کی تکلیف ہو کہ اُن سے پہلے کوئی بندہ اِس قدر آسانی کے ساتھ نثر میں مشکل الفاظ کیوں کر استعمال کرگیا!
زمزمہ محبت میں ایک یونانی دیو مالائی کہانی ’’حقیقت کہاں ہے؟‘‘ کا ترجمہ بھی شامل ہے جو ’الہلال‘ میں شائع ہوئی تھی ۔ترجمہ بھی شاندار ہے اور کہانی بھی لا جواب ہے۔ دیوکلس ،حکمت کا طالب علم ہے اور حقیقت کا متلاشی۔ اُس کی اکاڈیمی میں حکمت کی دیوی کا بت نصب ہے، دیو کلس اُس دیوی سے درخواست کرتا ہے کہ اُس پر حقیقت کو بے نقاب کردے جس کی جستجو میں تمام فلسفی اور نوع انسانیت سرگرداں رہتی ہے۔ حکمت کی دیوی دیوکلس کی پکار سُن لیتی ہے اور پھر دیوی کی رہنمائی میں دیو کلس ایک کے بعد ایک حقیقت کے پردے چاک کرتا ہے، ہر مرحلے کے بعد اُس پر ایک نیا انکشاف ہوتا ہے، ایک نئی روشنی سے پالا پڑتا ہے، دھندلائے ہوئے مناظر پہلے سے زیادہ واضح ہو جاتے ہیں۔ اور بالآخر آخری پردہ چاک کرنے کامرحلہ آن پہنچتا ہے ، جب وہ پردہ کھینچتا ہے تو روشنی غائب ہو جاتی ہے اور دیو کلس چلاتا ہے ’’اے دیوی ! حقیقت کہاں ہے ؟مجھے تو کچھ سُجھائی نہیں دیتا۔ وہ،جو آخری پردے کے پیچھے تھی، کہاں چلی گئی؟‘‘دیوی جواب دیتی ہے کہ ’’تیری آنکھیں پھوٹ گئی ہیں۔۔۔بے نقاب حقیقت کوئی بھی نہیں دیکھ سکتا ۔اگر دیکھ سکتا ہے تو اسے پردوں ہی میں لپٹا دیکھ سکتا ہے۔ کوئی دس پردوں کے اندر سے دیکھتا ہے۔ کوئی اس سے کم میں دیکھتا ہے۔ کوئی اس سے بھی زیادہ میں۔ مگر حقیقتِ عریاں کا مشاہدہ ناممکن ہے ۔۔۔‘‘
ایک ’حقیقت ‘وہ تھی جو ہمیں مغالطہ پاکستان میں پڑھائی گئی ،مگر جب ہم نے پہلا پردہ چاک کیا تو پتا چلا کہ نصاب کی کتابوں کے باہر بھی ایک دنیا ہے جس کی حقیقت کچھ مختلف ہے ۔کچھ حیران ہوئے کچھ شوق بڑھا۔دوسراپردہ چاک کیا تو معلوم ہوا کہ اِن کتابوں میں بھی کچھ باتیں ایسی ہیں جو ایک تیسری حقیقت کا پتا دیتی ہیں۔ اگلا پردہ کھینچا تو انکشاف ہوا کہ ہم تو بحرِ بے کراں کے ساحل پر کھڑے تھے جہاں اتفاق سے ایک موتی ہمارے ہاتھ لگ گیا جسے حقیقتِ مطلق سمجھ بیٹھے۔ اب اگلا پردہ چاک کرنے کی ہمت ہم میں نہیں، نہ جانے حقیقتِ عریاں کیسی ہو!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)