ہر سال 8؍مارچ کا دن ’’عورتوں کےعالمی دن‘‘ کے نام سے منایا جاتا ہے۔عورت جسے خدا نے ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے مقدس رشتوں سے نوازا ہے معاشرے میں استحصال کا شکارہے۔ مرد کی بالادستی کے معاشرے میں مرد کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ جسے چاہے تقدیس و پاکیزگی کے ساتویں آسمان پر بٹھا دے اور جسے چاہے غلاظتوں کے گٹر میں ڈال دے۔ خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے اپنے تبصرہ میں وائس آف امریکہ نے کہا ہے کہ پاکستان میں آج بھی خواتین کی قرآن کے ساتھ شادیاں ہوتی ہیں۔ آج بھی پاکستان میں عورت 70فیصد روزمرہ کی زندگی میں پانی بھرنے سے لے کر ہل چلانے تک کا کام کرتی ہے۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق ویمن و بچہ جیل کراچی میں قید 221خواتین میں سے 42مائیں بن گئی ہیں جب کہ درجن سے زائد خواتین حاملہ ہیں اس طرح قیدی بچوں کی تعداد بھی 462تک پہنچ گئی ہے، خواتین قیدیوں میں اکثریت حدود آرڈیننس کی بتائی جاتی ہے۔
پاکستان میں ایک حالیہ سروے کے مطابق 2020ء کے پہلے نو ماہ کے دوران خواتین کے خلاف تشدد، اعضا کاٹنے، چہرہ بگاڑنے، خودکشی اور دیگر جرائم کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ ان نو مہینوں کے دوران ملک بھر میں 169افراد نے خودکشی کی جن میں گھریلو ناچاقیوں کی بنا پر 62 خواتین کی خودکشی بھی شامل ہے۔ اقدام خودکشی کرنے والیوں میں 61خواتین ہیں۔ 26؍دسمبر 2019ء سے 27؍فروری 2020ء کے دوران ملک بھر میں 24خواتین کو نشانہ بنایا گیا جن میں صرف جنسی حملے اور جنسی تشدد شامل تھا۔ جنسی تشدد کا شکار ہونے والی خواتین میں 17نوعمر بچیاں بھی شامل ہیں۔ 26؍ دسمبر سے 27؍ فروری کے دوران 48 افراد کو کارو کاری کہہ کر قتل کردیا گیا جن میں 18مرد اور 30عورتیں شامل ہیں۔ 10عورتیں اپنے شوہروں کے ہاتھوں قتل ہوئیں۔
مندرجہ بالا تمام اعداد و شمار پر پاکستان کی قومی اسمبلی میں بحث مباحثہ ظہور پذیر ہوچکا ہے، کچھ عرصہ پہلے قومی اسمبلی جس میں یہ فتویٰ دیا گیا تھا اور متحدہ مجلس عمل، ان کے حلیف اور ساتھی بتاتے ہیں کہ سرحد اسمبلی میں اراکین صوبائی اسمبلی کے وفاداریاں بدلنے کے خوف سے انہیں اکٹھا کرکے اس بات پر حلف لیا گیا کہ ’’وہ متحدہ مجلس عمل سے غداری نہیں کریں گے اور جو ایسا کرے گا اس کی بیوی کو طلاق ہوجائے گی‘‘۔ دیکھا آپ نے یار لوگوں نے طلاق دینے کا کیا حسین جواز ڈھونڈ نکالا ہے یعنی وفاداری تو بدلے مرد لیکن طلاق ہوجائے گھر بیٹھی اس کی بیوی کو۔ اس بے چاری کا کیا قصور؟ عورت کے بارے میں اس طرح کا ظالمانہ رویہ ہمارے معاشرہ میں کوئی نئی بات نہیں لیکن لطف یہ ہے (میں اسے دلچسپ نہیں کہہ رہا) کہ یہ سب کچھ رسم ورواج کے نام پر کیا جاتا ہے۔کبھی بھائی سے جوانی نہیں سنبھالی جاتی تو کسی کی بہن یا بیٹی پر ہاتھ ڈالنے کے بعد جب مسائل کا شکار ہوجاتا ہے تو صلح کے لئے اس کے پاس سب سے حقیر پراپرٹی اپنی بہن ہوتی ہے جسے وہ مظلوم لڑکی کے بھائی یا باپ کے نکاح میں دے کر اپنی جان چھڑا کر سرخرو ہوجاتا ہے، یعنی ایک لڑکی پر ظلم کی انتہا کے جواب میں ایک اور لڑکی پر ظلم ڈھا دیا جاتا ہے جسے وہ ’’انصاف‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ بات وہی ہے کہ ہمارے معاشرے میں عورت پر ظلم کا ذمہ دار صرف رواج و روایات ہی نہیں بلکہ دین کے مکمل فہم کا فقدان بھی ہے جس کے تحت عورت کو ادھورا، نامکمل، ناقص العقل، اور ذاتی جاگیر خیال کیا جاتا ہے۔
یہ سب دیکھتے ہوئے معاشرہ بھی عورت کو تیسرے درجے کی مخلوق سمجھتا ہے۔ عورت کے ساتھ قدامت پرستوں نے انصاف نہیں کیا۔ اس لیے میرے حساب سے ہمیں عورت کو وہ مقام دینا چاہیے جو قرآن نے عطا کیا ہے۔
مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی!
یشودھا کی ہم جنس رادھا کی بیٹی
پیغمبر کی امت زلیخا کی بیٹی
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)