اسلام آباد(فاروق اقدس، نامہ نگارخصوصی) اعتماد کا ووٹ لینے کیساتھ وزیراعظم عمران خان کیلئے ہفتے کا دن اس حوالے سے بھی خوشگوار تھا کہ وزارت کا منصب سنبھالنے کے تقریباً پونے تین سال بعد یہ پہلا موقع تھا کہ انھیں ایوان میں طویل اور بغیر کسی مداخلت کے تقریر کا موقع ملا اور ایسا بھی کم کم ہی ہوا ہے کہ اپوزیشن کی نشستوں پر ایک رکن بھی موجود نہیں تھا اور وہاں مکمل سکوت طاری تھا جس کا وزیراعظم نے بھرپور فائدہ اٹھایا، اپنی طویل دورانیے کی تقریر جو کم و بیش پچاس منٹ کے دورانیے پر محیط تھی نہ صرف انھوں نے اپنا مافی الضمیرکھل کر بیان کیا بلکہ اپوزیشن کی قیادت بالخصوص نواز شریف اور آصف زرداری کیساتھ ساتھ یوسف رضا گیلانی اورمولانا فضل الرحمن کیخلاف ’’اپنے دل کا بوجھ‘‘ ان الفاظ میں ہلکا کیا جو جلسے اور جلوسوں میں استعمال کیے جاتے ہیں اور ایوان میں انھیں غیر پارلیمانی الفاظ قرار دیا جاتا ہے۔ چونکہ وزیراعظم کو ایوان میں کوئی روکنے ، ٹوکنے والا نہیں تھا اس لیے انھوں نے حکومت پر نکتہ چین الیکشن کمیشن کو بھی تجویز پر مبنی بعض ہدایات دیں۔ اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیابی جو درحقیقت ان کی اتحادی جماعتوں کی وجہ سے ہی ممکن ہوئی۔ وزیراعظم ایوان میں ان پر خاصے مہربان دکھائی دیے۔ انھوں نے نہ صرف اپنی تقریر میں تمام اتحادی جماعتوں کا شکریہ ادا کیا بلکہ ان کی نشست پر جاکر ان سے ہاتھ ملایا اور تشکر کے جذبات کا اظہار کیا۔ لیکن دوسری طرف ان کی اپنی جماعت کے ارکان وزیراعظم کے التفات سے محروم ہی رہے، کچھ ارکان جن میں بعض خواتین بھی شامل تھیں۔ وزیراعظم سے بات کرنے اور ان کے ساتھ تصویر بنوانے کی خواہشمند تھیں لیکن وزیراعظم قطعی بے نیازی سے اپنی ملحقہ نشست پر موجود شاہ محمود قریشی سے گفتگو میں مصروف رہے۔ جن ارکان کا وزیراعظم نے سلام کا جواب دیا وہ ’’شاداں اور خود کو بامراد‘‘سمجھتے ہوئے واپس گئے کہ انھوں نے تقریباً تین سال میں اپنے قائد سے پہلی مرتبہ ہاتھ ملایا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ایک چھڑی کے سہارے ایوان میں داخل ہوئے، بتایا گیا کہ ان کی ٹانگ میں شدید تکلیف ہے اور اسی باعث ایوان میں جب قومی ترانہ بجا تو وہ اپنی نشست پر کھڑے نہ ہوسکے۔ تاہم کچھ ہی دیر بعد جب وزیراعظم کے اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے سپیکر نے انھیں قرارداد پیش کرنے کیلئے کہا تو وزیرخارجہ بمشکل تمام اپنی نشست سے کھڑے ہوگئے جس پر سپیکر نے کہا کہ قریشی صاحب آپ بیٹھ کر بھی قرارداد پیش کرسکتے ہیں لیکن وزیرخارجہ نے اپنی نشست سے کھڑے ہوکر قرارداد پیش کی۔