• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس دنیا میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی فنانسنگ کی روک تھام کا ذمہ دار عالمی ادارہ ہے جس نے 29جون 2018 میں پیرس میں منعقدہ اپنے اجلاس میں پاکستان کو ’’گرے لسٹ‘‘ میں شامل کیا تھا اور ایک 27نکاتی ایکشن پلان پر 31اکتوبر 2019 تک عملدرآمد کیلئے کہا تھا لیکن کورونا کے باعث FATF کا اجلاس ستمبر 2020 میں ہوا جس میں پاکستان نے FATF کے دو ترامیمی بل ’’انسداد ِدہشت گردی ترمیمی بل 2020 ‘‘ اور ’’اقوام متحدہ سلامتی کونسل ترمیمی بل 2020 ‘‘ اپوزیشن کے سخت احتجاج کے باوجود پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے منظور کرواکے FATF کی باقی 13شرائط کی تکمیل کیلئے پیش کئے لیکن FATF نے اپنے اکتوبر 2020 کے اجلاس میں ان 6سفارشات پر عملدرآمد کو غیر اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے 4 شعبوں میں مزید کام کرنے کیلئے پاکستان کو فروری 2021 تک کا اضافی وقت دیا تھا۔ FATF کے 22سے 25فروری 2021 تک ہونے والے حالیہ اجلاس میں 205، رکن ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کے مندوبین نے آن لائن شرکت کی اور پاکستان کے اقدامات کا جائزہ لیتے ہوئے فیصلہ کیا کہ پاکستان کو شدت پسندوں کی مالی امداد کی روک تھام کیلئے 3شعبوں میں مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس میں 1۔پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے ادارے اس کا عملی مظاہرہ کریں کہ وہ دہشت گردوں کی مالی معاونت میں ملوث افراد اور کالعدم تنظیموں کیلئے کام کرنے والے افراد کیخلاف قانونی کارروائی کررہے ہیں۔ 2۔اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ دہشت گردوں کی مالی امداد میں ملوث افراد اور تنظیموں کے خلاف قانونی کارروائی کے نتیجے میں انہیں سزا ہو تاکہ ان جرائم کا خاتمہ ہوسکے۔ 3 ۔اقوام متحدہ کی فہرست میں نامزد دہشت گردوں اور ان کی مالی معاونت کرنے والے افراد کیخلاف مالی پابندیاں عائد اور اثاثے منجمد کئے جائیں۔ اجلاس میں پاکستان کو 27میں سے ان 3سفارشات پر مزید کام کرنے کیلئے کہا گیا ہے اور پاکستان جون 2021 تک گرے لسٹ میں رہے گا۔

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس جس کا قیام 1989 میں عمل میں لایا گیا، کا بنیادی مقصد رشوت خوری اور کرپشن کے پیسوں کی غیر قانونی منی لانڈرنگ پر نظر رکھنا اور اسے روکنے کیلئے عالمی قوانین بنانا ہے۔ پاکستان براہ راست FATF کا ممبر نہیں لیکن اس کی ذیلی تنظیم ’’ایشیا پیسفک گروپ‘‘ کے ذریعے FATF سے وابستہ ہے جو دنیا کے ممالک اور مالیاتی اداروں کی 3اقسام میں درجہ بندی کرتی ہے۔ ایک فہرست ’’بلیک لسٹ‘‘کہلاتی ہے جن میں وہ ممالک شامل ہوتے ہیں جو اس تنظیم کے مطابق مناسب قانون سازی کیلئے دنیا اور عالمی اداروں سے ’’عدم تعاون‘‘ کرتے ہیں یعنی وہ جان بوجھ کر پیسوں کی اسمگلنگ، رشوت خوری اور کرپشن کے پیسوں کی غیر قانونی منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں۔ FATF کی نئی لسٹ کے مطابق صرف 2ممالک شمالی کوریا اور ایران ’’بلیک لسٹ‘‘ میں شامل ہیں جبکہ بھارت، پاکستان کو بھی ’’بلیک لسٹ‘‘ میں شامل کروانے کیلئے سرگرم عمل ہے لیکن 31ماہ کے دوران پاکستان کے FATF سے مسلسل تعاون اور عملی اقدامات کے نتیجے میں بھارت اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ پاکستان کے ان اقدامات میں بیرون ملک کرنسی کی ترسیل اور اوپن اکائونٹ پر پابندی، اسٹیٹ بینک، SECP اور ایف بی آر قوانین میں تبدیلی، کائونٹر ٹیررازم اتھارٹی کی بحالی، بینکوں میں بے نامی اکائونٹس کا خاتمہ، اکائونٹس ہولڈرز کی جانکاری، فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کا بین الاقوامی مالی اداروں سے تعاون، اینٹی نارکوٹکس فورس میں قانونی اصلاحات اور عالمی تعاون، کالعدم تنظیموں جن میں جیش محمد اور القاعدہ شامل ہیں، کے خلاف کارروائی، ان کے اثاثوں پر کریک ڈائون، کالعدم تنظیموں کے ماتحت چلنے والے دینی مدارس کو حکومتی تحویل میں لینا شامل ہے جبکہ پاکستان کی انکم ٹیکس، فارن ایکسچینج ریگولیشن، اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ اور 1992ءکی پروٹیکشن آف اکنامک ریفارمز ایکٹ کے تحت بینکنگ چینل کے ذریعے بیرون ملک سے پاکستان بھیجی جانے والی خطیر رقوم جو ذرائع آمدن بتائے بغیر قانونی تسلیم کی جاتی تھیں، اب پابندی کے بعد زیادہ سے زیادہ 50لاکھ روپے سالانہ بھیجے جاسکتے ہیں۔ FATF کے مطالبے پر پاکستان میں منی لانڈرنگ کی سزا 5سال سے بڑھاکر 10سال اور جرمانے کی رقم ایک کروڑ روپےسے بڑھاکر 5کروڑ روپےکردی گئی ہے جبکہ ملزمان کی جائیدادیں ضبط اور اسلحہ لائسنس بھی منسوخ کردیئے جائیں گے۔ اس کے علاوہ دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت کرنے والوں پر ڈھائی کروڑ روپے اور اداروں پر 5کروڑ روپے جرمانہ بھی کیا جائے گا۔

FATF کی دوسری فہرست ’’گرے لسٹ‘‘ ہوتی ہے جن میں وہ ممالک شامل ہیں جو عدم تعاون تو نہیں کررہے مگر انہوں نے اس سلسلے میں ناکافی قانون سازی کی ہے جن پر مزید قانون سازی اور نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔21فروری 2020ءسے پاکستان سمیت دنیا کے 18ممالک ’’گرے لسٹ‘‘ میں شامل ہیں جن میں زیادہ تر ٹیکس ہیون یعنی ’’ٹیکس پناہ گاہیں‘‘ ہیں۔ تیسری فہرست ’’واچ لسٹ‘‘ کہلاتی ہے جن میں وہ ممالک شامل ہیں جن پر منی لانڈرنگ کے حوالے سے نظر رکھی جاتی ہے اور آئندہ اجلاس میں ان ممالک کے بارے میں فیصلہ کیا جاتا ہے۔ واچ لسٹ آفیشل طور پر شائع نہیں کی جاتی۔ FATF کی شرائط پر عملدرآمد نہ کرنے کی صورت میں پاکستان کا رسک پروفائل بڑھ جائے گا اور بیرونی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری اور کاروبار کرنے سے گریز کریں گے لہٰذاحکومت کو باقی 3نکات پر مکمل عملدرآمد کرکے پاکستان کو ’’گرے لسٹ‘‘ سے جلد از جلد نکالنے کیلئے راہ ہموار کرنا ہوگی کیونکہ کمزور ملکی معیشت اور آئی ایم ایف کے توسیعی پروگرام میں جانے کے بعد پاکستان کا ’’گرے لسٹ‘‘ میں رہنا ایک اچھا شگون نہیں۔

تازہ ترین