• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ویسے تو موسم بالکل نہیں بدلا۔ گرمی اپنی شدت کے ساتھ موجود ہے اور لوڈشیڈنگ نے اس کی شدت میں اضافہ کر دیاہے لیکن یہ امید کہ شاید نئی حکومت کے آتے ہی حالات میں کچھ بہتری آئے ، نے اندر کے موسم میں کچھ تبدیلی پیداکردی ہے۔کل قومی اسمبلی میں نومنتخب اراکین کے حلف کو دیکھ کر امانت علی خان کی گائی
”موسم بدلا رُت گدرائی‘ اہل جنوں بے باک ہوئے“
یاد آ رہی ہے۔ نوازشریف صاحب کو 14 برس بعد قومی اسمبلی میں دیکھا۔ ان کے بائیں طرف چودھری نثار علی خان، احسن اقبال، خواجہ آصف اور پیچھے شاہد خاقان عباسی اور سعد رفیق کو بیٹھے دیکھا۔ خبریں گرم ہیں کہ ان میں سے بہت سے اصحاب کیبنٹ میں بھی شامل ہوں گے۔ چودھری نثار صاحب کا نام وزیر داخلہ کے طور پر لیا جارہا ہے۔ احسن اقبال صاحب کے بارے میں خبر گرم ہے کہ انہیں انفارمیشن کا شعبہ دیاجائے گا۔ خواجہ سعد رفیق شاید ریلوے کے منسٹر بنیں گے۔ وزارت خزانہ اسحق ڈار کے پاس آئے گی اور دفاع اور خارجہ کے محکمے جناب وزیراعظم نوازشریف صاحب اپنے پاس رکھیں گے۔ اسی حوالے سے کل ایک مذاکرے میں شرکت کا موقع ملا۔ ہمارے دوست حسن عسکری، افتخار احمد اور پی جے میر بھی اس میں شامل تھے۔ دوستو ں کا خیال یہ تھا کہ یہ ضروری ہے کہ وزارت ِ خارجہ کے لئے کوئی مضبوط شخصیت سامنے لائی جائے۔ آنے والے دنوں میں وزیراعظم پر جو پریشر ہوگا اس سے نمٹنے کے لئے جو وقت وزیراعظم کو درکار ہوگا اس کے بعد وزیراعظم وزارت ِ خارجہ کو صحیح وقت ہی نہیں دے پائیں گے۔ اس وقت ہمیں خارجی سطح پر بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ہندوستان کے ساتھ تعلقات کچھ بہتری کی طرف مائل ہیں لیکن انہیں ایک ایسی سطح پر لانا جہاں دونوں ممالک کی ایک دوسرے کے بارے میں شدید بدگمانیاں دور ہوسکیں بہت مدبرانہ سوچ اور حکمت عملی کا متقاضی ہے۔ کشمیر کے مسئلے کو بھی پس پشت نہیں ڈالاجاسکتا جیسا کہ ڈکلن والش نے اپنے ایک حالیہ کالم میں لکھا کہ ہندوستان اور پاکستان کو ایک د وسرے کے لئے بہترین ٹریڈنگ پارٹنر بننا چاہئے۔ اس وقت اگر دیکھاجائے تو پاکستان کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی معیشت بھی کچھ بہتر حال میں نہیں ہے۔ جنوری مارچ تک کے اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ اس دوران ہندوستان کی معیشت پچھلے دس برس کی سب سے کم ترریٹنگ پر رہی۔ یہ کوئی اچھی صورتحال نہیں ہے لیکن ایسے میں ہندوستان پربھی پریشر ہے کہ وہ پاکستان سے تعلقات بہتر بنائے۔ دوسری طرف افغانستان سے انخلا کے بعد امریکہ ایک نئی حکمت عملی کے تحت پاکستان سے تعلقات کااجرا چاہے گا۔طالبان کے ساتھ کیسارویہ رکھنا ہے؟ افغانستان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی؟ اور اگر ڈرون حملے جاری رہتے ہیں تو امریکہ کے ساتھ تعلقات اور روابط کیسے ہوں گے؟ یہ سب بڑے سوال ہیں جو آگے اٹھنے والے ہیں۔ وزیرخارجہ پر اس کابہت پریشر ہوگا۔ سننے میں آ رہا ہے کہ وزیراعظم اس معاملے میں طارق فاطمی اور ریاض کھوکھر جیسے ذہین ڈپلومیٹس کاایک پینل بنائیں گے اور خارجہ پالیسیوں میں ان سے مدد لیں گے۔
اس حوالے سے سب سے مشکل منسٹری خزانہ اور توانائی کی ہے۔ خزانہ اس لئے کہ اس وقت خزانہ تقریباً خالی ہے۔ اگلے ماہ آئی ایم ایف کی اقساط کی واپسی کے بعد ہمارے پاس زرمبادلہ کی بہت کمی واقع ہوگی۔ ہمارا گروتھ ریٹ برے حال میں ہے۔ اس وقت ہماری ترقی صرف 3 فیصد کے قریب ہے اس کو ہمیں 7سے 8 فیصد تک لانا ہوگا۔ انڈسٹری پر بھی بہت برے اثرات ہیں اس کی بحالی کے لئے اقدامات کرناہوں گے۔ عوام مہنگائی تلے دبے ہوئے ہیں ان پر بھی زیادہ پریشر نہیں ڈالا جاسکتا۔ ضرورت ایسے میں اس بات کی ہے کہ اپنے ٹیکس کے نظام کو بہتر بنایا جائے اور وہ تمام لوگ جو ٹیکس چور ہیں انہیں پکڑا جائے۔ مگر ان کے مخالفین کہتے ہیں کہ یہ ایک انتہائی مشکل کام ہوگا۔
مسلم لیگ (ن) کاووٹ بنک زیادہ تر درمیانے طبقے اور تاجر برادری پر مشتمل ہے اوربدقسمتی یہ ہے کہ یہ تمام لوگ ٹیکس نہیں دیتے۔ سوال ایسے میں یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلم لیگ(ن) ان تمام لوگوں کو ناراض کرسکتی ہے؟ مشکل ترین حالات میں مسلم لیگ(ن) کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ سیاست کے بجائے ملک کے مفاد میں فیصلے کرنے ہوں گے۔
ایسا ہی مشکل کام اس وقت انرجی کی صورتحال کو بہتر کرنے کاہے۔ اس کام کیلئے اس وقت خبرگرم ہے کہ خواجہ آصف کو چناگیاہے۔ خواجہ آصف ویسے تو ایک اچھے منیجر کے طور پر شہرت رکھتے ہیں لیکن اس جن کو قابو میں لانے کیلئے وہ کیا حکمت عملی اختیار کریں گے؟ اس پر مسلم لیگ (ن) کی کامیابی یا ناکامی ٹنگی ہوئی ہے۔ اس وقت لوڈشیڈنگ کے نظام کوفوری طورپر بہتر کرنے کیلئے 500 ارب روپے درکار ہیں۔ پھر اس نظام کو چلانے کیلئے ہر ماہ 3ارب روپے درکار ہوں گے۔ خالی خزانے کے ساتھ یہ رقم کہا ں سے آئے گی؟ لوڈشیڈنگ کی ایک بڑی وجہ بجلی چوری ہے۔ ہمارا ٹریڈر طبقہ اور درمیانہ صنعت کار اس معاملے میں بھی کافی بدنام ہے۔ اس کو کیسے پکڑا جائے گا؟ خود بجلی کے محکمے سے منسلک افسران اور لائن مین کس طرح اپنی حرام روزی کو چھوڑنے پر آمادہ ہوں گے۔ یہ سب بہت بڑی حکمت عملی کے متقاضی ہیں۔ خواجہ آصف کے پچھلے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے اگرچہ یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اس کا کوئی نہ کوئی حل تلاش کرلیں گے لیکن مسائل واقعی بڑے گھمبیر ہیں۔
ایک اور مشکل محکمہ داخلہ کا ہے۔ شنید یہی ہے کہ یہ کام چوہدری نثار کو سونپا جائے گا۔ اس وقت کراچی، بلوچستان اور خیبرپختونخوا ایسے صوبے ہیں جو اس حوالے سے فوری توجہ چاہتے ہیں۔ خاص طور پر کراچی میں جو گینگ وار اور فرقہ واریت کی جنگ چل رہی ہے اس کو روکنا بے حد ضروری ہے۔ ماضی میں ایسے حالات میں رحمن ملک صاحب حالات خراب ہوتے ہی نائن زیرو یا پھر لندن میں الطاف بھائی سے ملاقات کرکے اور پھر شاہی سید اور اے این پی کے دوسرے لیڈران سے مل کر حالات کو کچھ بہتر کر لیتے تھے لیکن چودھری نثار ایک مختلف آدمی ہیں۔ وہ بہت زیادہ دوستیاں نہیں پالتے۔ پی پی پی اور متحدہ سے بھی ان کے تعلقات کشیدہ ہی رہے ہیں۔ اپنے ذراسے سخت گیری کے جذبات کے ساتھ وہ اس معاملے سے کیسے نمٹیں گے یہ ایک بڑا سوال ہے۔خیبرپختونخوا میں یہی چیلنج کافی بڑا ہے۔ طالبان سے مذاکرات کس طرح اور کن شرائط پر ہوں گے۔ خاص طورپر ایسے میں کہ صوبے کی حکومت طالبان کے بارے میں نرم گوشہ رکھتی ہے۔
ان تمام مشکلات کے باوجود امید پھربھی باقی ہے۔ ”موسم بدلا رُت گدرائی“ آپ بھی امانت علی خان کی گائی اس اردو غزل کو سنیں اور انجوائے کریں۔
تازہ ترین