ایک نئی ریسرچ کے نتیجے میں یہ بات سامنے آ ئی ہے کہ مثبت غذا اور متحرک طرز زندگی مرد و خواتین کی ذہنی صحت کی بہتری میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
طبی و غذائی ماہرین کے مطابق غذا کا براہ راست تعلق انسانی ذہن سے ہے، کیا کھایا پیا جا رہا ہے اور کس قسم کی زندگی، متحرک یا غیر متحرک گزار رہے ہیں اس کا ذہنی صحت پر بہت اثر پڑتا ہے۔
ماہرین کی جانب سے انسانی جسمانی صحت برقرار اور اعضاء کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے مثبت غذا اور متحرک طرز زندگی تجویز کیا جاتا ہے جس کے سبب ذہنی صحت میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور انسان ڈپریشن اور ذہنی دباؤ جیسی بیماریوں سے بچ جاتا ہے۔
بنگھمٹن یونیورسٹی آف نیویارک کی جانب سے کی گئی ریسرچ کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ متوازن غذا جس میں انسانی صحت کے لیے مطلوب سب ہی نیوٹرینٹس اور غذائیت موجود ہو انسانی زندگی میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔
ڈائیٹنگ سے مجموعی صحت سمیت ذہنی صحت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں، ایسی غذا ذہنی صحت کے لیے دوا کا اکردار ادا کرتی ہے۔
محقیقین کے مطابق یہ سائنسی تحقیق سے تصدیق شدہ بات ہے کہ اچھی غذا بہتر ذہنی صحت کی ضامن ہے جبکہ مضر صحت غذا انسانی جسم سمیت ذہنی بیماریوں کا بھی سبب بنتی ہے ۔
محققین کاکہنا ہے کہ غذا کا ذہنی صحت سے براہ راست تعلق متعدد تحقیق میں ثابت کیا جا چکا ہے مگر اس میں یہ بات جاننا ضروری ہے کہ ایک ہی قسم کی متوازن اور صحت بخش غذا ہر فرد کے لیے آئیڈیل قرار نہیں دی جا سکتی، ہر عمر کے فرد اور ہر جنس کے لیے یہ متوازن اور مثبت غذا کا پیمانہ مختلف ثابت ہو سکتا ہے۔
اسسٹنٹ پروفیسر بیگڈہچ کے مطابق مردوں اور خواتین کی جسمانی ضروریات مختلف ہونے کے سبب غذا اور روٹین میں بھی تبدیلی کی جانی چاہیے، مرد و خواتین کے لیے مثبت غذائیں بھی مختلف ہوتی ہیں، ایک غذا کو سب ہی عمر کے فرد اور جنس کے لیے مثبت قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔
اسسٹنٹ پروفیسر بیگڈہچ جو کہ ایک تصدیق شدہ ڈائیٹیشن بھی ہیں، انہوں نے رپورٹ میں ریسرچ کے نتائج سے متعلق مزید بتاتے ہوئے کہا ہے کہ 18 سال کی عمر سے لے کر 29 سال تک انسانی جسم کی غذائی ضروریات مختلف ہوتی ہیں جبکہ 30 سال کے بعد غذا میں بدلاؤ لانا نہایت لازمی ہوتا ہے، ان عمروں کے دوران ہر جنس کی مختلف غذائی ضروریات مختلف ہوتی ہیں۔
5 سال کے دورانیے میں 2,600 افراد سے کھانے پینے کی عادات سے متعلق ایک آن لائن فارم پُر کروایا گیا جس کے نتیجے میں سامنے آنے والے ڈیٹا کے مطابق جو افراد اپنی غذا میں کیفین اور فاسٹ فوڈ کا زیادہ استعمال کر رہے تھے اُن میں ڈپریشن عام اور ذہنی بیماریاں زیادہ پائی گئیں جبکہ جو افراد کیفین اور متوازن مثبت غذا اور متحرک زندگی جی رہے تھے ان میں ذہنی الجھنیں کم اور ڈپریشن بھی کم تھا۔
ماہرین کے مطابق جو مرد 29 سال کی عمر سے قبل کیفین کا زیادہ استعمال کر رہے تھے ان میں ہم عمر کی خواتین کے مقابلے میں غصہ، ڈپریشن اور اضطراب زیادہ پایا گیا تھا، ماہرین کے مطابق جو بالغ افراد غیر متحرک زندگی اور مضر صحت غذا کا استعمال کرتے ہیں اُن میں ڈپریشن زیادہ پایا جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اس ریسرچ کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ مردوں میں صرف کیفین اور فاسٹ فوڈ کے سبب ہی ذہنی صحت متاثر پائی گئی تھی جبکہ خواتین میں مثبت غذا کے ساتھ کیفین لینے یا غذا میں تھوڑی سی بے احتیاطی کے سبب بھی ذہنی صحت متاثر دیکھی گئی۔
خواتین کو اپنی ذہنی صحت بہتر رکھنے کے لیے مثبت غذا، بہتر روٹین کے ساتھ ساتھ ورزش کی ضرورت بھی ہوتی ہے جبکہ مردوں میں ایسا نہیں ہے، خواتین کو بالغ عمر سے لے کر ادھیڑ عمر تک ذہنی صحت برقرار رکھنے کے لیے ورزش، مثبت غذا اور متحرک روٹین کی ضرورت پڑتی ہے۔