اسلام آباد، لاہور (نمائندہ جنگ، ایجنسیاں، ٹی وی رپورٹ) پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نےووٹ مستردکرانے والوں کی تلاش تیز کردی ہے۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے نوازشریف اور آصف زرداری سے فون پر رابطہ کیا، جس میں تینوں رہنمائوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ سینیٹ الیکشن میں شکست کی وجوہات کی تہہ تک پہنچیں گے، اس سلسلے میں اپوزیشن کے مشتبہ ارکان کے فون چیک کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ اب استعفوں کے بغیر لانگ مارچ فائدہ مند نہیں ہوگا، دوسری جانب پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس منگل کو اسلام آبادمیں طلب کرلیاگیا،جس میں لانگ مارچ اور مولانا فضل الرحمٰن کے تحفظات پر غور ہوگا اور استعفوں پرحتمی فیصلہ بھی متوقع ہے، اس حوالے سے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانافضل الرحمٰن نے شاہد خاقان عباسی سے رابطہ کیا اور اسمبلیوں سے استعفے دینے پر زور دیا ہے۔
ادھر یوسف رضاگیلانی کی آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات ہوئی، جس میں ضائع ہونے والے ووٹوں کامعاملہ عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیاگیاہے،جس کیلئے 3رکنی قانونی ٹیم تشکیل دی گئی ہے، لطیف کھوسہ، فاروق ایچ نائیک، نیئربخاری پیروی کرینگے۔
بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ ووٹ پر ڈاکہ ڈالنے والوں کا ہر فورم پر مقابلہ کرینگے، کامیابیوں کے تسلسل کیلئے ضروری ہے پارلیمان سے مستعفی نہ ہوں، کیمروں کا معاملہ واٹر گیٹ کی طرح بڑا اسکینڈل ہے، کسی اپوزیشن سینیٹر نے غلط مہر نہیں لگائی، اپوزیشن سینیٹرز پر مکمل اعتماد ہے۔
تفصیلات کے مطابق چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں شکست کے بعد پاکستان کی حزب اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے تین فیصلہ سازوں نے سر جوڑ لیے۔
ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمن، نوازشریف اور آصف زرداری میں ٹیلی فونک رابطہ ہوا ہے، تینوں رہنماؤں نے چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں شکست کی وجوہات تک پہنچنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹیلیفونک رابطے میں لانگ مارچ کی تیاریوں اور پی ڈی ایم کے مستقبل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اب استعفوں کے بغیر لانگ مارچ فائدہ مند نہیں ہوگا، تینوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ صادق سنجرانی سے قریبی تعلق رکھنے والے اپوزیشن اراکین کو چیک کیا جائے۔
پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں سینیٹ الیکشن کا معاملہ بھی زیر غور آئیگا۔ دریں اثناء پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے قائدین چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کی شکست کے بعد حکمت عملی مرتب کرنے کیلئے 15مارچ کو اکھٹے ہونگے۔
مولانا فضل الرحمٰن پاکستان پیپلز پارٹی کے مطالبے پر پی ڈی ایم سربراہی اجلاس کا انعقاد کررہے ہیں، جو پیر کواسلام آباد میں ہوگا، جس میں سینیٹ میں شکست کے بعد کی حکمت عملی مرتب کی جائیگی۔ اجلاس میں بلاول بھٹو زرداری، مریم نواز کے ساتھ تمام جماعتوں کے قائدین شریک ہونگے، جہاں پی ڈی ایم امیدواروں کی شکست کا معاملہ زیر غور آئے گا، وہیں حکومت کو کم ازکم چھ اضافی ووٹ کا معاملہ بھی دیکھا جائیگا۔
ذرائع کے مطابق جے یو آئی کو اپنے امیدوار کیلئے 44 ووٹ پڑنے پر تحفظات ہیں، اگر یوسف گیلانی کو 49 ووٹ پڑے تو غفور حیدری کیساتھ دغا کیوں ہوا؟ جے یو آئی سوال اٹھائیگی۔ پیر کے روز ہونے والے سربراہی اجلاس میں ’’سب اچھا‘‘ نہیں ہوگا۔اجلاس میں کھل کر ساری صورتحال پر گفتگو ہوگی، تحریک عدم اعتماد بارے بھی غور ہوگا۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی جانب سے وضاحت بھی پیش کی جائیگی۔ ادھر پیپلز پارٹی نے سینیٹ الیکشن کو چیلنج کر نے کیلئے فاروق ایچ نائیک ، نیئر بخاری اور لطیف کھوسہ پر مشتمل قانونی ٹیم تشکیل دیدی، پیر دو درخواست ہائی کورٹ میں دائر کی جائیگی ۔
ہفتہ کو سید یوسف رضا گیلانی ،آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کے درمیان ملاقات ہوئی جس میں 7 ووٹ مسترد کیے جانے پرتفصیلی مشاور ت کی گئی ، مسترد شدہ ووٹ پیر کواسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے،پیپلز پارٹی نے فاروق ایچ نائیک ، نیئر بخاری اور لطیف کھوسہ پر مشتمل قانونی ٹیم تشکیل دیدی۔
انہوں نے کہاکہ 7 ووٹوں پر ڈاکہ پی ڈی ایم کو تقسیم کرنے کی ناکام سازش ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہاکہ پیپلز پارٹی کو کمزور نہ سمجھا جائے ، ووٹ پر ڈاکہ کو پارلیمنٹ کی اندر اور باہر ہر فورم پر چیلنج کیا جائیگا۔
زرداری ہاؤس اسلام آباد میں ہونے والے عشائیے کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہاکہ پارلیمان سے استعفے دینے یا نہ دینے کا معاملہ اہم ہے، پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے فیصلے کرینگے۔ دریں اثناء چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے پیپلز پارٹی کے سینیٹروں کے اعزاز میں زرداری ہائوس اسلام آباد میں عشائیہ دیا گیا۔
عشائیہ میں مسز فریال تالپور، سید یوسف رضا گیلانی، شیری رحمان، مصطفیٰ نواز کھوکھر سمیت تمام سینیٹروں نے شرکت کی۔ذرائع کے مطابق اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ یہ غلط تاثر پیدا کیا جارہا ہے کہ کچھ اپوزیشن سینیٹرز نے جان بوجھ کر غلط مہر لگائی۔
انہوں نے کہا کہ سیکرٹری سینیٹ کی ہدایات کی روشنی میں سینیٹرز کو امیدوار کے خانے میں کہیں بھی مہر لگانے کی ہدایات کی گئی تھیں۔ نمائندہ جنگ کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن، نوازشریف اور آصف علی زرداری درمیان ٹیلی فون پر گفتگو میں اس بات پر اتفاق رائے ہوا کہ 12 مارچ کو ایوان بالا میں جو کچھ ہوا اس کے ذمہ داران کو ہر صورت منظرعام پر لایا جائیگا اور تمام حقائق عوام کے سامنے پیش کئے جائیں گے۔
تینوں رہنمائوں میں انتخاب میں شکست کی وجوہات تک پہنچنے کے عزم پر اتفاق رائے ہوا۔تینوں رہنمائوں نے 26 مارچ کو ہونے والے لانگ مارچ اور حکومت کیخلاف دھرنے کے بارے میں بھی تفصیلی مشاورت کی۔
ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے اپنے دیرینہ موقف کا اعادہ کرتے ہوئے دونوں بڑی جماعتوں کے قائدین پر زور دیا کہ اگر 26 مارچ کو ہونے والے احتجاج کو مطلوبہ انداز میں کامیابی نہ ملی تو پھر اس کا فائدہ ہونے کی بجائے نقصان ہوگا اس لئے اگر احتجاج کو بامقصد بنانا اور نتیجہ خیز بنانا ہے تو پہلے اسمبلیوں سے استعفے دیئے جائیں۔
ان ذرائع کے مطابق اس حوالے سے اتفاق میں جوش اور اعتماد کا فقدان تھا جبکہ ایک جماعت کے قائد نے اس حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے قدرے تذبذب کا اظہار کیا۔
ان ذرائع کے مطابق لانگ مارچ اور دھرنے کیلئے لوگوں کو جمع کرنے اور انتظامات پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا جبکہ مولانا فضل الرحمٰن نے ماضی کے تلخ تجربے کے پیش نظر دونوں جماعتوں کی جانب سے ’’مطلوبہ یقین دھانیاں تحریری طور پر نہ ملنے کی صورت میں بعض ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کا بھی عندیہ دیا ہے۔