• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گیلانی ہارا یا سسٹم؟ جمہوریت ہاری یا گیلانی؟ سنجرانی کی جیت بنتی تھی؟ یہ وہ بحث ہے جو اب چلتی رہے گی، سنجرانی صاحب کا ایک دفعہ پھر حلف ہو گیا۔ چوں کہ عددی اکثریت صادق سنجرانی کی ہوئی چنانچہ انہیں جیت کی نوید سنا دی گئی۔

صادق سنجرانی کو جو 48 ووٹ ملے وہ جیت کیلئے کم نہیں۔ مانا کہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی بھی جیت کے اسکور تک پہنچ گئے مگر ان کے سات ووٹ مسترد ہوئے۔ یہ سات ووٹ مسترد نہ ہوتے تو گیلانی ایک آدھ ووٹ سے جیت جاتے۔ جیت جاتے تو کیا ہوتا؟

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سنجرانی صاحب کو کون لایا تھا؟ جواب یہ ہے کہ سنجرانی صاحب کی جیت کی وجہ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کے مابین سیاسی گرما گرمی اور سرد شخصی جنگ تھی۔ ہوا یہ تھا کہ بلوچستان سے نون لیگ کی حکومت قبل از وقت ختم کردی گئی، پیپلزپارٹی یہ حکومت ختم کرنے میں پیش پیش تھی۔ گویا الیکشن 2018 سے قبل بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کا وجود عمل میں آیا جس میں اکثریت نون لیگ کے باغی اراکین کی تھی۔

علاوہ ازیں جمعیت علمائے اسلام(ف)، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) شامل تھیں جنہوں نے 2018 کے اوائل میں نون لیگ کو چلتا کیا۔ المختصر، الیکشن 2018 میں 51میں سے 50 سیٹوں پر الیکشن ہوا جس میں سے 15سیٹوں کے ساتھ باپ پہلے نمبر پر رہی۔ مولانا فضل الرحمن کا اتحاد (ایم ایم اے) 9 سیٹوں کے ساتھ دوسرے اور بی این پی مینگل 7نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی۔

آج کے بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال 2013 میں قومی اسمبلی کی نشست جیت کر آئے تھے اور مرکز میں محض ایک پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ تھے جن کا شکریہ نومنتخب چیئرمین سینٹ نے عمران خان کے بعد ادا کیا۔ بہرحال ’’دوستوں‘‘ کے شکر گزار وہ ہیں ہی۔ سنجرانی صاحب کی جیت سے ایک روز قبل سہیل وڑائچ نے اپنے ایک بی بی سی تجزیہ میں کیا خوب واقعہ بیان فرمایا ’’ایک وفاقی وزیر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ تبصرہ کیا کہ صادق سنجرانی کی فتح پر ہمیں کوئی شک نہیں۔

ہمیں ان کے بارے میں فکر بھی نہیں۔ وہ جن کا بندہ ہے وہ خود ہی اس کی جیت کا بندوبست بھی کر دیں گے۔‘‘ سیانے درست کہتے ہیں ’’سہاگن وہی جو پیا من بھائے۔‘‘ ہمیں بھی صادق سنجرانی محبِ وطن لگے ہیں کیونکہ بقول احباب بلوچستان میں موٹی موٹی تین چار سیاسی اقسام ہیں یعنی پختون پسند، بلوچ پسند، نظریہ پسند اور محبِ وطن۔

جس دن حب الوطنی اور جمہوریت پسندی ایک صفحہ پر آگئے سمجھ لیجئے اگلے دن سے انسانی اقدار کا بول بالا اور انصاف دہلیز تک چلا آئے گا بصورت دیگر ایوانِ بالا میں سو میں سے سات ’’جاہل‘‘ رہیں گے جنہیں درست ووٹ کاسٹ بھی نہیں کرنا آتا بھلا وہ قانون سازیوں اور قانون شناسیوں کا کیا کمال اور جمال رکھیں گے۔ ہم سے جب کبھی کسی نے جمہوریت اور اسٹیبلشمنٹ کا تقابلی جائزہ پوچھا، ہم نے ایک ہی جواب دیا کہ جمہوریت کسی بھی ریاست کا حُسن ہے اور اسٹیبلشمنٹ رومانس۔ اور جس دن دونوں ایک پیج پر آگئے تو ربانی و گیلانی و سعد رفیق ہی جیتیں گے ورنہ بڑا یا چھوٹا پیکج ہی دستیاب ہوگا۔

اور وہ دن دور نہیں جب جمہوریت پھلے پھولے گی لیکن جب بلاول بھٹو زرداری کہیں گے کہ صادق سنجرانی کبھی پی پی میں شمولیت کیلئے ’’حلف‘‘ دینے کیلئے تیار تھے۔ اور میاں نواز شریف فرمائیں گے ’’ماحول‘‘ نیوٹرل نہیں اور دوستوں کی مداخلت ہے تو ’’پھر‘‘ سنجرانی نہ جیتیں تو کون جیتے؟

یاد رکھئے جب تک جیت پی ٹی آئی یا پی پی پی یا نون لیگ کی نہیں ہوتی بھلے ہی پیٹریاٹ یا قاف لیگ و جونیجو لیگ یا کوئی صادق جیتے بیل منڈے نہیں چڑھ سکتی۔ جب سے پنجاب سے جمہوریت نوازی کی لہر اٹھتی نظر آ رہی ہے تب سے امید کو استقامت ملنے کے درپے ہے۔

ورنہ پی پی کے خاتمہ کے بعد پنجاب کی سیاست کا جمہوری رنگ بھی بلوچستان ہی کی طرح کا ہو چکا تھا۔ تھوڑا وقت لگے گا کیونکہ ارتقاء کو اپنا مقررہ یا مطلوبہ وقت مطلوب ہوتا ہے۔ قصور سیاست دانوں کا بھی بہت ہے کہ جب انہیں مرضی کا سودا اور حرص کو تقویت ملنے لگے تو یہ امید کی جگہ یقین کو رکھ لیتے ہیں اور جب منزل قریب ہو تو یہ یقین کا دامن چھوڑ کر اچانک لالچ کا پلہ تھام لیتے ہیں۔ جب تک سیاسی پارٹیاں انسٹی ٹیوشنل روپ نہیں دھارتیں چھاتہ بردار تو آتے رہیں گے۔

لیکن جانے ایسا کیوں لگتا ہے کہ تجربات و مشاہدات کا سامنا کچھ اتنی تیزی سے ہوا ہے کہ ہم جلد کچھ سیکھنے والے ہیں۔ وہ الگ بات ہے کہ گیلانی صاحب کو 49ووٹ ملے اور ان کے 7ووٹ خراب ہوئے مگر غفور حیدری کو کیوں 49نہ ملے اور صرف 44 ملے؟ اتحاد کا قصور ہے یا اتفاق کا؟

ہم تو یہ بھی کہتے ہیں یہ تجربہ بھی اچھا ہوا کہ پارلیمنٹ کے اندر کا انتخابی نظام اور پریذائیڈنگ آفسر بھی چیلنج ہوا صرف ڈسکہ ہی کا نہیں۔ دھند سے کیمروں تک کی پہیلی بھی ایک بحث کو تو جنم دے گی۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کا اندرونی بگاڑ چیلنج نہیں ہوسکتا کچھ کے نزدیک ہوسکتا ہے۔

کچھ کہتے ہیں بیلٹ پیپر پر مہر لگانے کا طریقہ واضح نہیں سو ووٹر کی نیت دیکھی جاتی ہے۔ (نیت ہی کا تو فتور ہے) تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ 1997 میں وسیم سجاد کے 18ووٹ مسترد ہوئے تھے مگر بعد میں درست قرار پائے۔ مطلب یہ کہ ابھی سیاسی جنگ نے عدالتی جنگ کا روپ بھی دھارنا ہے اور لگتا ہے کہ ڈسکہ کی دھند سے شروع ہونے والی کہانی جو سینٹ چیئرمین الیکشن کے خفیہ کیمروں تک پہنچی اس کا رنگ بھی عدالتوں میں جمنے والا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں راز کی بات بتا دوں، اس سینٹ الیکشن میں بہرحال نون لیگ کی سیاسی بصیرت بہتر تھی۔

اور جہاں تک سوال سینٹ کے حالیہ الیکشن یا پچھلے سیاسی و انتخابی ادوار کا ہوگا، اس ضمن میں جواب ایک ہی ہے، جب جب سیاست دانوں نے مقتدرہ کو مواقع فراہم کئے تب تب مداخلت عمل میں آئی۔ جب تک سیاست دانوں کی جگہ اسٹیٹس مین نہیں ہوں گے اور جب تک خالص سیاست دان وسیع القلب و وسیع النظر نہیں ہوگا، سنجرانی ہی جیتیں گے! کرلو جو کرنا ہے!

تازہ ترین