• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خطے میں بھارت، انڈونیشیا، ملائیشیا، ترکی، تھائی لینڈ اور سری لنکا کی کرنسیوں کی قدر ڈالر کے مقابلے میں کم ہورہی ہے جبکہ پاکستانی روپے کی قدر غیر ملکی کرنسیوں کے مقابلے میں مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں مسلسل اضافے سے ایشیاء میں پاکستانی کرنسی تیسری مستحکم کرنسی بن گئی ہے۔ 5 مارچ 2021ء کو انٹربینک میں ڈالر کی قدر روپے کے مقابلے میںنچلی سطح 156.90 روپے پر پہنچ گئی تھی جو اگست 2020ءمیں 169روپے کے مقابلے میں 12 روپے کم ہے اور یہ رجحان یہ ظاہر کرتا ہے کہ گزشتہ 8مہینے میں پاکستانی روپیہ ڈالر کے مقابلے میں 7فیصد، برطانوی پائونڈ کے مقابلے میں 6.2فیصد اور یورو کے مقابلے میں 8فیصد مستحکم ہوا ہے۔ 2017میں آئی ایم ایف نے پاکستانی کرنسی کی قدر 20فیصد اوور ویلیو بتائی تھی جس کی بنیاد پر نومبر 2017ءسے مئی 2019ءتک روپے کی قدر میں 28.5فیصد کمی آئی اور مارچ 2020ءمیں 1.89ارب ڈالر ہاٹ منی بیرون ملک منتقلی کی وجہ سے 26 اگست 2020 ءکو پاکستانی روپیہ ڈالر کے مقابلے میں 32فیصد کمی کیساتھ 168روپے کی نچلی ترین سطح تک پہنچ گیا جو اب 7فیصد اضافے سے 157روپے کی سطح پر آگیا ہے۔ روپے کی قدر میں حالیہ اضافے کی پہلی وجہ اسٹیٹ بینک کے روشن ڈیجیٹل اکائونٹ (RDA) کی کامیابی ہے جس میں 100سے زائد ممالک میں مقیم بیرون ملک پاکستانیوں نے 6مہینے میں ایک لاکھ سے زائد اکائونٹس میں اب تک 671ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے اور تقریباً ہر روز 500سے 600نئے اکائونٹس کھل رہے ہیں جن میں 6سے 7ملین ڈالر روزانہ بھیجے جارہےہیں۔ اگر بیرون ملک مقیم 6 سے 7ملین پاکستانی روشن ڈیجیٹل اکائونٹ کھولتے ہیں تو RDA میں 2ارب ڈالر تک کی سرمایہ کاری ممکن ہے۔ اس پوٹینشل کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے تقریباً تمام بڑے بینکس RDA اسکیم میں شامل ہوگئے ہیں۔ دوسری وجہ زرمبادلہ کے بیرونی ذخائر میں اضافہ ہے جو بڑھ کر 20.2ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں جن میں 13.1ارب ڈالر اسٹیٹ بینک اور 7.1ارب ڈالر کمرشل بینکوں کے ڈپازٹس ہیں۔ تیسری وجہ پاکستان کو آئی ایم ایف کے توسیعی معاہدے کے تحت اس ماہ کے آخر میں 550ملین ڈالر کی ملنے والی قسط ہے۔ چوتھی وجہ حکومت کا مستقبل قریب میں 500ملین ڈالر کے یورو بانڈز کا اجرا ہے جبکہ اسلامک ٹریڈ فنانس کارپوریشن نے پاکستان کو تیل اور ایل این جی کی امپورٹ کیلئے 1.1ارب ڈالر کا قرضہ بھی دیا ہے۔ پانچویں وجہ ملکی ایکسپورٹس میں اضافہ ہے جو رواں مالی سال کے آخر تک 26ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہیں۔ چھٹی وجہ کورونا وبا کے باعث غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کا موخر ہونا ہے جس سے زرمبادلہ کے ذخائر پر وقتی بوجھ کم ہوا ہے جس کی وجہ سے کرنٹ اکائونٹ خسارے میں 73فیصد کمی آئی ہے۔ ساتویں وجہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا روشن ڈیجیٹل اکائونٹ اور بینکنگ چینل سے ترسیلاتِ زر بھیجنا ہے کیونکہ منی لانڈرنگ کے سخت قوانین کے باعث اب حوالہ یا ہنڈی کے ذریعے رقم بھیجنا نہایت مشکل ہوگیا ہے۔اُمید کی جارہی ہے کہ رواں مالی سال کے آخر تک ملکی ترسیلات ِزر ریکارڈ 27سے 28ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہیں۔ ان تمام وجوہات کے باعث پاکستان کے بیرونی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے جس نے روپے کی قدر کو مضبوط کیا ہے۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں روپیہ ڈالر کے مقابلے میں مزید مضبوط ہوکر 155روپے تک پہنچ سکتا ہے جبکہ حال ہی میں ڈالر اوپن مارکیٹ میں 150روپے میں فروخت ہوا ہے۔ فاریکس ایسوسی ایشن کے صدر ملک بوستان ہوتی نے بتایا کہ روزانہ 5سے 7ملین ڈالر کیش کرائے جارہے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں ڈالر کی طلب 5فیصد بھی نہیں۔ ان کے مطابق ملک میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے روپے کی قدر میں ہو رہامسلسل اضافہ رک گیا ہے۔مستحکم اور مضبوط پاکستانی روپے کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاروں کا پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر اعتماد بڑھا ہے جس کا اندازہ PSX انڈیکس میں مسلسل اضافے سے لگایا جاسکتا ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپیہ مستحکم ہونے سے پاکستان کا امپورٹ بل سستے ڈالر کی وجہ سے کم ہوگا جس کا مثبت اثر پیٹرولیم مصنوعات، ایل این جی، کھانے پینے کی اشیا، چائے، خوردنی تیل اور خام مال کی امپورٹ پر پڑے گا لیکن روپیہ زیادہ مضبوط ہونے سے ملکی ایکسپورٹس غیر مساقبقتی ہوسکتی ہیں کیونکہ اب ایکسپورٹرز کو ایک ڈالر کے مقابلے میں 157 روپے مل رہے ہیں جبکہ 8ماہ قبل 168 روپے ملتے تھے جس کے نتیجے میں ایکسپورٹرز کو اپنی مصنوعات کی قیمتیں بڑھانا پڑیں گی جس کے باعث عالمی مارکیٹ میں ہم غیر مسابقتی ہو سکتے ہیں۔ روپے کی قدر بڑھنے سے ہمارے 113ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کے بوجھ اور ادائیگی میں بھی کمی آئے گی۔ 2017میں نواز حکومت کے وزیر خزانہ نے مارکیٹ میں ڈالر پھینک کر ڈالر کی طلب کے باعث مصنوعی طور پر روپے کی قدر 100سے 102روپے رکھی جس کی وجہ سے ملکی امپورٹس سستی ہونے کے باعث 58ارب ڈالر جبکہ ایکسپورٹس بہ مشکل 22ارب ڈالر تھیں جس کے باعث حکومت کو 36ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ درپیش تھا۔ میں مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت اس کی طلب اور رسد کے مطابق ہونے کا قائل ہوں اور کسی بھی مصنوعی طریقے سے روپے کی قدر اونچا رکھنے کے حق میں نہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے روپے کی قدر مارکیٹ میکنزم پر رکھتے ہوئے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر بڑھاکر روپے کی قدر مستحکم رکھنے کی حکمت عملی اپنائی ہوئی ہے جو کہ ایک درست پالیسی ہے۔

تازہ ترین