• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چیئرمین سینیٹ کا انتخاب ہاؤس کارروائی یا نہیں؟ ماہرین کی مختلف رائے

اسلام آباد (طارق بٹ) سینیٹ چیئرمین کے انتخاب میں شامل عمل آیا پارلیمان کی کارروائی تھی یا نہیں اس پر رائے مختلف ہے جسے آئین کے تحت عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا ہے۔ممتاز آئینی ماہر وسیم سجاد کا موقف ہے کہ سینیٹ کے چیئرمین کا انتخاب ہاؤس کی کارروائی تھی۔ لیکن ایک اور معروف وکیل کامران مرتضیٰ کا ماننا ہے کہ اس انتخاب کو پارلیمنٹ کی کارروائی صرف ان کی تعریف کو بڑھا کرکہا جاسکتا ہے۔ دیگر قانونی ماہرین نے پریذائیڈنگ آفیسر (پی او) سید مظفر شاہ کے مشاہدے پر اعتبار کیاجنہوں نے اپوزیشن کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کے سات ووٹوں کو مسترد کرتے ہوئے ایک سے زیادہ بار دہرایا۔ وسیم سجاد نے کہا کہ یہ پہلا موقع ہوگا جب سینیٹ کے چیئرمین کے لئے انتخابات میں مسترد ووٹوں کے معاملے کو کسی اعلیٰ عدالت میں زیر بحث لایا جائے گا۔ یہ انوکھا معاملہ ہوگا اور اس کا فیصلہ ایک نئی عدالتی مثال قائم کرے گا۔کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ یہ سوال کہ آیا سینیٹ چیف کا انتخاب ہاؤس کی کارروائی تھی یا نہیں عدالت میں پٹیشن کی سماعتوں میں یقیناً سامنے آجائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ مسترد شدہ ووٹوں پر سوال کرنے کے لئے دو عدالتی آپشنز دستیاب ہیں جیسا کہ قانون میں کسی بھی دوسرے فورم پر اسے حرکت میں لانے کا کوئی تدارک دستیاب نہیں۔ آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی جاسکتی ہے۔ یا آرٹیکل 184 (3) کے تحت ایک عرضی سپریم کورٹ میں جمع کرائی جاسکتی ہے۔ان کے خیال میں اعلیٰ عدالت سے رجوع کرنا بہتر ہے۔ تاہم وکیل نے کہا کہ دیگر انتخابات میں مسترد ووٹوں کا معاملہ سپریم کورٹ کے ذریعہ پہلے ہی حتمی طور پر طے ہوچکا ہےجو ڈاکٹر شیرافگن کیس میں ہوا تھا کہ بیلٹ پیپر پر اظہار کی گئی ووٹر کی نیت کو وزن دینا اور قبول کرنا پڑتا ہے۔ وسیم سجاد نے کہا کہ اگر رائے دہندگان کی شناخت کسی نشان یا اشارے سے بیلٹ پر ظاہر کردی جاتی ہے تو کیس کے قانون کے مطابق کاغذ کالعدم ہوجائے گا۔ اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ مسترد ووٹوں کی بنیاد پر چیئرمین یا اسپیکر کے انتخاب کو کبھی بھی کسی عدالت میں چیلنج کیا گیا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اعلیٰ عدالت تین بنیادوں پر کسی بھی معاملے میں مداخلت کرسکتی ہےاگر کیا گیا فعل بدنیتی پر مبنی، دائرہ اختیار کے بغیر یا خلاف قانون ہو۔ انہوں نے کہا کہ یہ سب عدالت کے اطمینان کے لئے ثابت کرنا ہوگا جو ایک مشکل کام ہے۔ ماہر قانون کا کہنا تھا کہ عدالتی کارروائی میں پریذائڈنگ آفیسر کے سات ووٹوں کو مسترد کرنے کے اختیارات کا سوال زیربحث آئے گا۔ اس کی بد نیتی ثابت کرنے کی ذمہ داری اپوزیشن کے کاندھوں پر ہوگی۔

تازہ ترین