• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماحولیاتی آلودگی پر گفتگو اور پھر اس مسئلہ کی نشاندہی پر بڑی توجہ دی جاتی ہے۔ لیکن اس مسئلہ کا مستقل حل تلاش کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ کیوں کہ اس کے لیے انفرادی سطح پر احساس ذمہ داری پیدا کرنا بہت ضروری ہے ۔ کیوں کہ اب یہ مسئلہ صرف شہری علاقوں تک محدود نہیں رہا بلکہ دیہی علاقے بھی اس سے محفوظ نہیں۔ اصل وجہ "civic sense / تمدنی شعور یا شہریت کا شعور " کے فقدان کا ہے۔ شہری علاقے ہوں یا دیہی علاقے حتی کہ شمالی علاقاجات ہوں۔ گھر کے کچرے کو کھلے عام پھینکنا ہر شہری پر فرض ہے ۔ پہاڑی علاقوں میں پہاڑ کاٹ کر زمین ہم وار کرکے گھر بنانے کا مشکل مرحلہ بآسانی طے کر لیا جاتا ہے اور کھڑکی کے ذریعے نیچے پہاڑیوں پر ڈال دیا جاتاہے جو انتہائی بد نما بھی دکھائی دیتا ہے اور ساتھ ساتھ ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ کا سبب بھی۔ سونے پہ سہاگہ وہاں آنے والے سیاحوں کا رویہ ہے، جو اپنے آنے کا ثبوت استعمال شدہ پیمپرز، منرل واٹر کی خالی بوتلوں، خالی جوس کے ڈبو ں کو پھینک کر دیتے ہیں۔ جو آنکھوں کو بھی برا لگتا ہے اور ان حسین قدرتی نظاروں کی خوبصورتی کو کملہ رہا ہے۔اس کی سب بڑی مثال جھیل سیف الملوک کی ہے۔ یقینی طور پر اس کی خوبصورتی مانی جاتی تھی اور اب مانی جاتی ہے لیکن صرف گندگی کی وجہ سے اس کی خوبصورتی ماند پڑ گئی ہےکیوں کہ ہمارے ہاں کا ایک اور مزاج ہے کہ تفریحی مقامات تو بنا دیئے جاتے ہیں لیکن پبلک ٹوائلیٹ /" عوامی استنجا گھر " کی تعمیر کو اہمیت نہیں دی جاتی، علاوہ ازیں garbage collection drums جسے عرف عام میں کچرا کنڈی کہا جاتا ہے ان کی فراہمی کو اہمیت دی ہی نہیں گئی۔ ایسے میں جب گرمیوں کی چھٹیوں میں خاندان کے خاندان ان شمالی علاقوں کا رخ کرتے ہیں تو سہولیات کی فراہمی کی کمی کے ساتھ ساتھ اپنے civic sense کی کمی کا بھر پور نمونہ پیش کرتے ہیں۔ مری، ایوبیہ، نتھیاگلی، بھوربن سے لے کر شوگران، سری پائے، تو سوات سے لے کر کالام، کاغان سے ناران، اور بابو سرٹاپ ہر علاقہ ماحولیاتی آلودگی کا شکار نظر آتا ہے۔ ادھر گلگت بلتستان کے علاقے میں کچھ حالات CPEC کی بدولت کچھ بہتر ہو چکے ہیں۔ ابھی حکومت سیاحت کو صنعت کا درجہ دینے جارہی ہے۔ جو کہ یقینا ایک احسن قدم ہے۔ لیکن اس سیاحت سے زرمبادلہ اسی وقت کمایا جا سکتا ہے جب صفائی کے معیار کو بہتر سے بہتر بنایا جائے۔ ہر چیز کے معیار کے بین الاقوامی معیار کے الفاظ استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف جگہ جگہ کچرے کے ڈرم رکھے جائیں۔ جنہیں دن میں کئی دفعہ خالی کیا جائے۔ اسی طرح ہر آدھے میٹر پر پبلک ٹوائلیٹ بنائیں جائیں اور ان کی درست طور وقت پہ صفائی کروائی جائے تبھی جاکے ہم دوسرے ملکوں کو متاثر کرسکیں گے۔ کیونکہ اب ان ساری قدرتی حسن کی مالک جگہوں کو موٹر ویز کے ذریعے جوڑا جارہا جو کہ یقینا خوش آئند بات ہے ۔ اگر ضلعی انتظامیہ متحرک ہو کر ان دو سہولتوں کی فراہمی اپنے ذمہ لے لے تو کوئی شک نہیں کہ ہم بہت زیادہ زرمبادلہ کما سکتے ہیں۔ شرط ہے ذمہ دار بننے کی ۔ بالکل اسی طرح شہری اور دیہی علاقوں میں ایکٹو بلدیاتی ادارے فعال ہو جائیں۔ کچرے اور فصل کے بھوسے کو جلانے پہ پابندی لگادی جائیں۔ ماحولیاتی آلودگی کو کم کیا جاسکتا ہے ۔ ورنہ کرتے رہئے سیمینار اور بناتے رہئے ادارے، ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہی ہوگا۔ اس وقت صرف ارادے کی ضرورت ہے پیسہ اتنا درکار نہیں ہوگا ۔ عمل کرکے دیکھ لیں۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین