• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاناما لیکس کے نام پر افشا کی گئی آف شور کمپنیوں کی تفصیلات میں وزیر اعظم نواز شریف کے نام کی شمولیت یا اشارے کی موجودگی کو غلطی کا نتیجہ تسلیم کئے جانے کے بعد پاکستان میں محسوس ہونے والی اس غیریقینی کیفیت میں یقیناً کمی آئی ہے جو دنیا بھر میں پیدا ہونے والی ہل چل کا حصہ کہی جاسکتی ہے تاہم ہمیں اپنے رویوں، سوچ اور اقدامات میں احتیاط کے پہلو ملحوظ رکھنے کی ضرورت سے کسی طور غافل نہیں رہنا چاہئے۔ عالمی سیاست اور مفادات کے تیزی سے بدلتے ہوئے منظرنامے میں جس انداز سے ہر ناخوشگوار واقعہ اور ہر منفی کیفیت کے حوالے سے برسوں سے اسلام آباد کی طرف انگلیاں اٹھائی جاتی رہیں، انہیں دیکھتے ہوئے ضرورت تو اس بات کی تھی کہ ایک طرف اندرونی گورننس بہتر بنانے پر خاص توجہ دی جاتی دوسری طرف پاکستانی سفارت خانوں کو زیادہ متحرک کرکے دنیا کے ہر دارالحکومت میں عام لوگوں کو پاکستان پر اندر اور باہر سے مسلط کی گئی عالمی جنگ کی جہتوں سے آگاہ کیا جاتا مگر ان امور میں نہ صرف غفلت سے کام لیا گیا بلکہ ہمارے بااثر حلقوں کا رویہ ایک دوست ملک کی پارلیمان میں کئی برس قبل اس نوع کے تبصرے کا موجب بنا کہ جس ملک کے بااختیار لوگ ٹیکس دینے سے اجتناب برتتے ہوں۔ اسے ہمارے عوام کے ٹیکس سے امداد لینے کا کیا حق ہے؟ پاناما پیپرز لیکس کے بعد دنیا بھر میں ہلچل کی جو کیفیت پیدا ہوئی اس کے اثرات سے وطن عزیز بھی محفوظ نہیں رہا۔ وزیر اعظم نواز شریف کو دو بار قوم سے خطاب میں اپنی پوزیشن واضح کرنا پڑی۔ عدالتی کمیشن کے قیام کے لئے سپریم کورٹ کو خط لکھ دیا گیا ہے جس کی تشکیل چیف جسٹس آف پاکستان کی بیرون ملک سے واپسی کے بعد متوقع ہے۔ کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس پر حکومت اور اپوزیشن میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ اس ضمن میں تحریک انصاف نے ’’کرپشن مٹائو ملک بچائو مارچ‘‘ کا آغاز کراچی سے کردیا ہے جبکہ 2؍مئی کو اسلام آباد میں اپوزیشن جماعتوں کے رہنما آئندہ لائحہ عمل پر غور کریں گے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ اعلیٰ عدالتی کمیشن کو صرف وزیراعظم اور ان کے خاندان کے بارے میں انکوائری کرنی چاہئے، پاناما لیکس کے ذریعے منظرعام پر آنے والے دوسرے کیسز کی تحقیقات بعد میں یا دوسرے کمیشن کے ذریعے کی جانی چاہئے۔ وفاقی وزیر اطلاعات کے مطابق یہ فیصلہ کرنا خود عدالتی کمیشن کا کام ہے کہ کس معاملے پر پہلے اور کس پر بعد میں غور کیا جائے۔ اب ایک اطلاع کے مطابق پاناما لیکس کا ایک اور دھماکہ 9؍مئی کو ہونے والا ہے جس میں 400سے زیادہ پاکستانی سیاستدانوں اور کاروباری افراد کی دوسری فہرست شامل ہوگی۔ دو لاکھ سے زائد آف شور کمپنیوں کے بارے میں یہ معلومات ہانگ کانگ سے امریکہ تک 21ٹیکس ہیونز کا احاطہ کریں گی۔ اس ہنگامے کے دوران پاناما پیپرز کا انکشاف کرنے والے انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کی طرف سے اپنی ویب سائٹ پر تصحیح کرتے ہوئے آف شور کمپنیوں کی تفصیلات سے نواز شریف کا نام اس وضاحت کے ساتھ خارج کردیا گیا ہے کہ ایڈیٹنگ کی غلطی کے باعث خبر میں کئی ملکوں کے حکمرانوں کے حوالے کے درمیان ایک جملہ غلط چلا گیا جس سے وزیر اعظم نواز شریف کے بارے میں آف شور کمپنیاں چلانے کا تاثر ابھرا۔ یہ وضاحت اور درستی بظاہر مسلم لیگ (ن) کے دانیال عزیز کی طرف سے لکھے جانے والے ایک خط کے بعد کی گئی ہے۔ وزیر اعظم اپنے خطاب میں اپنے صاحب زادوں کے کاروبار کو متعلقہ ملکوں کے قوانین کے عین مطابق قرار دے چکے ہیں تاہم بعض حلقے اس معاملے کے جس اخلاقی پہلو کی طرف توجہ مبذول کرا رہے ہیں اس کا جائزہ لیا جانا چاہئے۔ اہم بات یہ ہے کہ ملک کو درپیش چیلنجوں کا ادراک کرتے ہوئے کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس اور قانونی و اخلاقی ضابطہ کا فیصلہ جلوسوں، دھرنوں اور دھینگا مشتی کے ذریعے نہیں ہونا چاہئے۔ یہ معاملہ باہم مل جل کر طے کرنا چاہئے اور احتساب اور چیک اینڈ بیلنس کا ایسا موثر نظام وضع ہونا چاہئے جس سے جمہوری نظام کو زیادہ مستحکم و معتبر بنایا جاسکے۔
تازہ ترین