• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چین کے بین الاقوامی برادری، اقوام متحدہ اور علاقائی ممالک سے کئی معاملات پر اختلافات ہیں،ان میں سے ایک جنوبی چین سمندری تنازعہ بھی ہے۔ یہ معاملہ دوسری عالمی جنگ کے بعد شروع ہوا جب جاپان نے جنوبی چین کے مشہور پارسل جزیرے، سپریٹلی جزیرے اور دوسرے چھوٹے چھوٹے جزیروںپر قبضہ کرلیا ۔ جنگ تھمنے کے بعد جزیروں کے دعوے دار چین، برونائی، ویتنام، ملائیشیا، انڈونیشیا اور فلپائن سمیت متعدد ممالک بن گئے۔ بحیرہ جنوبی چین کا مجموعی رقبہ 3.5 ملین مربع کلومیٹر ہے۔ یہ علاقہ تیل اور تجارت کے حوالے سے انتہائی اہم ہے۔ 2019 کے اعداد و شمار کے مطابق ان پانیوں میں تقریباً 3.37 ٹریلین ڈالر مالیت کی تجارت ہوتی ہے۔ اس میں چین کی توانائی درآمدات کا تقریباً 80 فیصد حصہ ہے۔ تیل کی تلاش، ماہی گیری، سیاحت اور جہاز رانی کے علاوہ علاقائی تسلط کے لحاظ سے یہ انتہائی اہم علاقہ ہے۔ اس معاملہ میںچین سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہے، اس بات کا اندازہ چین مخالف ممالک کو بھی بخوبی ہے۔

27 جون،2018 کو2 امریکی جنگی جہازوں نے تائیوان سے بحیرہ جنوبی چین میںداخل ہو کر چینی سمندری حدود کی خلاف ورزی کی۔ پھر 2019 سے 2021 کے درمیان جنگی جہازوں، ڈرونوں اور فوجی مشقوں کے ذریعے طاقت کا بار بار مظاہرہ کیا گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ نے ایک اور سرد جنگ کی تیاری کرلی ہے جو ایشیاکو غیر مستحکم کرے اور مغربی تسلط کو ایک بار پھر یقینی بنائے یا بحیرہ جنوبی چین میں تیل کے ذخائر اصل ٹارگٹ ہیں؟ بحیرہ جنوبی چین کا چین اور امریکہ کی خارجہ پالیسی میں کلیدی کردارہے۔

بحیرۂ جنوبی چین کا تنازعہ اس علاقے میں تقریباً 17 بلین ٹن خام تیل کے ذخائر کی دریافت سے شروع ہوا ۔1949 میںPRC نے ذخائر اور سمندری علاقے کو چین کا حصہ قرار دیا۔ تنازعہ باضابطہ طور پر 1970کی دہائی میں سامنے آیاجب فلپائن نے ان جزیروں کی ملکیت کا دعویٰ کردیاجو تنائو کا باعث بن گیا۔اس وقت کے صدر فرڈینینڈ مارکوس نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ بحیرہ جنوبی چین میں جزیروں کی ملکیت کے لئے ثالثی کا آغاز کریں۔ چین نے بحیرہ جنوبی چین کو متنازعہ علاقہ قرار دیے جانے کے موقف کی تردید کی۔ بعدازاں، ہندوستان، برونائی اور امریکہ چین کی مخالفت میں میدان میںآ ئے اور بحیرہ جنوبی چین تنازعہ کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا، ان ممالک نے اس علاقہ کو متنازعہ نہ ماننے کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور عالمی امن کے لیے خطرہ قراردیا۔ آسیان ان اہم تنظیموں میں شامل ہوگیا جن کے مذاکرات کے مسودے کو PRC نے جزیرے کے ملکیتی تصفیے میں قبول کیا ۔ 2018تک ثالثی صدر ژی کے اس تبصرے تک جاری رہی کہ چین باپ دادا کی میراث میں سے ایک انچ بھی نہیں چھوڑے گا، جس نے تنازعہ کو نئی شکل دے دی۔ امریکی سیکرٹری برائے دفاع نے اس نقطہ نظر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ۔ ٹربیونل رول کے ذریعے اقوام متحدہ کی مداخلت کو صدر ژی نے پہلے ہی مسترد کر تے ہوئے کالعدم قراردے دیاتھا۔

چین کی علاقائی حدود کی خلاف ورزی اور بحیرہ جنوبی چین تنازعہ کی وجہ سے ہندوستان اور امریکہ کے الزامات کے بعد، چینی حکومت نے اس علاقے میں باضابطہ عسکری قوت بڑھانے کا آغاز کیا۔ گلوبل ایشیا میری ٹائم ٹرانسپیرنسی انیشی ایٹو کی مصنوعی سیارے کی تصاویر میں فوجی نقل و حرکت دیکھی جا سکتی ہے۔ چین نے واضح کیا ہے کہ وہ اپنے علاقے کے اس اہم حصے پر بات چیت کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق چین بحیرہ جنوبی چین میں ایک ایسا فوجی قلعہ بنا رہا ہے جو دنیا نے پہلے کبھی نہیں دیکھاہوگا۔ یہ اختلاف اس وقت بڑھا جب اقوام متحدہ کے بحری قانون کو امریکی صدر نے تسلیم کرنے سے انکارکردیا لیکن پھر بھی چین کی جانب سے اس کی اہمیت اور اس پر عمل درآمد پر زور دیا گیا۔ اب بحیرہ جنوبی چین کے بارے میں بیان بازی ،تجارتی شراکت داروں کے تحفظ اور بین الاقوامی پانیوں میں نقل و حمل کی آزادی کی باتیں کی جارہی ہیں جب کہ چین ریاستی خودمختاری اور علاقائی آزادی کی بات کر رہا ہے۔ دونوں فریق ایک انچ اپنے موقف سے ہٹنے کے لئے تیار نہیں۔ بیجنگ پہلی بارسختی سے سمندری دعوے کو تاریخی حقوق کی حفاظت قرار دے رہا ہے تاہم، اگر بیجنگ علاقائی سمندروں میں تاریخی ماہی گیری کے حقوق کی بجائے وسائل پر حقوق کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کا یہ دعویٰ پچھلے سفارتی ڈائیلاگز سے متصادم ہوگا۔

پُرامن بقائے باہمی اور باہمی مفادات کی بات کا وقت گزرچکا۔ محصولات میں اضافہ، ایک دوسرے کی طرف جنگی جہازوں کے رُخ اور چھوٹے اتحادیوں کی امداد تنازعہ کی شدت ظاہر کرتی ہے۔ چین توسیع کے مرحلے میں ہے جبکہ امریکہ فوجی اور معاشی طاقت ہے۔ امریکہ بحر الکاہل میں اتحادیوں تائیوان، جنوبی کوریا اور فلپائن کے ساتھ فوجی روابط مستحکم کر رہا ہے جبکہ چین BRI اور CPEC کے ذریعہ ایران اور پاکستان سمیت دیگر ممالک کو متبادل معاشی نظام مہیا کررہا ہے۔ فوجی طیارے بھی اب تجارتی جنگ لڑیںگے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چین اور امریکہ تصادم کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ طاقت کے پھیلائو اور معیشت کا سائزبڑھانے کی کشمکش ہے جس میں اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل بے بس نظر آتے ہیں۔ چین کے ساتھ جنوبی چین سمندری تنازعہ پربات سودے بازی اور طاقت کے استعمال دونوں آپشنز کے تحت کی جا سکتی ہے۔

(مصنف جناح رفیع فاؤنڈیشن کے چیئرمین ہیں)

تازہ ترین