کل کے آصف بلوچ اور آج کے آصف زرداری سیاست میں کمالات کے جادوگر ہیں، ان کے تازہ کمال نے پرانے کئی کمالات یاد کروا دیے ہیں۔ آصف علی زرداری کا ہر کمال پہلے سے زیادہ زبردست ہے۔ تازہ ترین کمال میں آصف علی زرداری نے بڑی چالاکی سے ن لیگ سے ووٹ لے کر اپنا سینیٹر بنوایا۔ سندھ میں ایم کیو ایم سے مبینہ طور پر خفیہ سمجھوتے کے ذریعے ایک سینیٹر زیادہ بنوایا۔ صوبے میں پیپلز پارٹی کے بڑے مخالفین پیر پگاڑا خاندان کے فرد کو شکست دے کر اپنا لوہا منوایا۔ پچھلے کچھ عرصے سے آصف علی زرداری کی تمام تر توجہ سندھ کی سیاست پر رہی۔ اس دوران انہوں نے اپنے بڑے مخالفین کو بڑی ہوشیاری سے کمزور کیا۔ اسی لئے آج بھی جب سندھ میں کوئی الیکشن ہوتا ہے تو تمام تر نالائقیوں کے باوجود پیپلز پارٹی سب سے آگے نظر آتی ہے۔ پی ڈی ایم کی سیاست اگرچہ حزبِ اختلاف کی سیاست ہے مگر آصف علی زرداری اس سے بھی پھل برآمد کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ انہوں نے بڑے کمال سے ضیاء الحق کی روحانی اولاد کو گڑھی خدا بخش لاڑکانہ بلوایا، بھٹو خاندان کی قبروں پر دعائیں کروائیں، اپنے بیٹے کے ذریعے سیر بھی کروائی اور بھرے جلسے میں ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘‘ کے نعرے بھی لگوائے۔ پی ڈی ایم ہی کے پلیٹ فارم سے اپنے بیٹے اور بیٹی کے پنجاب میں خطاب بھی کروائے۔ ویسے تو پیپلز پارٹی پنجاب کے شہروں میں بڑے جلسے نہیں کر سکتی تھی مگر پی ڈی ایم کے تحت مختلف شہروں کے بڑے جلسوں سے بلاول بھٹو زرداری اور آصفہ بھٹو زرداری کے ذریعے خطاب کروا کے اپنا پیغام بھی پہنچایا۔ ملتان میں آصفہ بھٹو زرداری نے ایسا خطاب کیا کہ اس شام میڈیا پر صرف آصف علی زرداری کی بیٹی کا تذکرہ ہوتا رہا بلکہ پی ڈی ایم میں سے ایک پارٹی کو آصفہ بھٹو زرداری کی تقریر کی بڑی تکلیف ہوئی۔ مبینہ طور پر کسی نے بلاول بھٹو زرداری کو پیغام بھی بھیجا کہ آصفہ بی بی کی بجائے آپ تقریریں کریں۔ اس پیغام کا واضح مطلب یہی تھا کہ کچھ لوگوں کو اپنی مارکیٹ ویلیو ختم ہونے کا ڈر تھا۔ اس دوران آصف علی زرداری نے بڑے طریقے سے اپنا کام جاری رکھا۔ کراچی میں ایک چھاپے کے ذریعے رسوائی کا موسم بھی خالی نہ جانے دیا۔ چند مہینوں کے کام میں سب سے بڑا کمال یہ دکھایا کہ ن لیگ کی اسٹیبلشمنٹ سے اتنی لڑائی کروا دی کہ ان کے اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایک دیوار کھڑی کردی۔ رہی سہی کسر میاں نواز شریف کے آخری بیان نے پوری کردی۔ یہ کام پہلے وڈیو خطاب سے شروع ہوا تھا۔ آپ کو یاد ہوگا جب اسلام آباد کے ایک بڑے ہوٹل میں پیپلز پارٹی نے میزبانی کرتے ہوئے آصف علی زرداری کی زبان سے صرف ابتدائیہ الفاظ ادا کروا کے مائیک نواز شریف کے وڈیو خطاب کے حوالے کردیا۔ اس روز نواز شریف نے وہ کچھ بھی کہہ دیا جس کا کبھی کسی نے سوچا نہ تھا، یہی تقریر اس ’’لاہوری بادشاہ‘‘ کو لے ڈوبی۔ اس دن نواز شریف کی بیٹی یہ کہہ رہی تھی کہ ’’وہ تو میاں صاحب کی تقریر نے سماں باندھ دیا تھا‘‘ وہی سماں ابھی تک ن لیگ کے گلے پڑا ہوا ہے۔ آصف علی زرداری کی سندھ حکومت تو بڑے آرام سے کام کر رہی ہے۔ اب سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بھی اس کا ہوگا۔ اگر عدالت نے ووٹوں کا رجحان مان لیا تو پھر تو منظر ہی اور ہوگا۔
پی ڈی ایم کے آخری اجلاس کے بعد قوم کے سامنے مایوس چہرے تھے۔ اسی لئے مولانا نے میڈیا کا زیادہ دیر سامنا کرنے سے گریز کیا۔ مریم نواز پریشانی کے عالم میں نظر آئیں۔ زرداری صاحب بھی کمال کے آدمی ہیں۔ مریم نواز انہیں والد بھی کہتی رہیں مگر وہ استعفوں سے گریزاں ہی رہے۔ اب اگر پیپلز پارٹی پی ڈی ایم سے نکلتی ہے تو پھر وہی نو ستارے بچیں گے جو بھٹو کے خلاف تھے۔ اس زمانے میں پیپلز پارٹی کے کارکن نعرے لگایا کرتے تھے:
نو ستارے چاندی دے
سارے پتر گاندھی دے
خواتین و حضرات! اس میں کوئی شک نہیں کہ آصف علی زرداری نے بڑی بہادری سے جیل کاٹی۔ وہ پورے برصغیر میں طویل ترین عرصے تک قید و بند میں رہنے والے سیاستدان بن گئے۔ میرا ان سے میل جول ہے۔ کبھی زیادہ کبھی کم مگر مراسم ہر حال میں رہے ہیں۔ یہ مراسم ان کے والد گرامی حاکم علی زرداری سے بھی تھے، ان کے خاندان کی خواتین سے بھی احترام کا رشتہ ہے۔ آصف علی زرداری مشکل ترین حالات میں بھی راستہ نکالنے کا سوچتے رہتے ہیں۔ شاید اس کی بڑی وجہ سیاسیات کے وہ پانچ پروفیسر ہیں جنہوں نے زمانہ طالب علمی میں آصف علی زرداری کو سیاسی گر سمجھائے تھے۔ یہ حاکم علی زرداری کی دانائی تھی کہ انہوں نے کراچی سے تعلق رکھنے والے سیاسیات کے اساتذہ سے آصف علی زرداری کو ٹیوشن پڑھائی۔ حاکم علی زرداری ادب شناس ہی نہیں، ادب کے قدر دان بھی تھے، وہ سرائیکی زبان کے کئی شعرا کی مالی امداد بھی کیا کرتے تھے۔ ان کا ذاتی زندگی پر مشتمل واحد ٹی وی انٹرویو صرف میرے پاس تھا جو ان کی وفات کے بعد آصف علی زرداری نے بطور خاص منگوایا اور پھر قومی میڈیا پر چلوایا۔ اس دن آصف علی زرداری کو پتہ چلا کہ ان کے والد کی میرے ساتھ کتنی گہری دوستی تھی۔ آصف علی زرداری سیاست میں کمال کے کھلاڑی ہیں۔ اپنے سخت ترین مخالف سے ’’مرد حر‘‘ کا خطاب پانے والے آصف علی زرداری سے وکٹ کے دونوں اطراف لوگوں کو ہوشیار رہنا ہوگا کیونکہ سیاست کا یہ خطرناک کھلاڑی کسی وقت کچھ بھی کرسکتا ہے کہ بقول نیلم بھٹی:
یوں آتا جاتا ہے دھڑکن کا پیرہن پہنے
سارے دل کو وہ اپنا ہی گھر سمجھتا ہے