پی ٹی آئی کو برسر اقتدار آئے دو سال اور سات ماہ ہو گئے ہیں۔ بدقسمتی سے وزیراعظم عمران خان کو پہلے دن سے ہی پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ایک ایسی اپوزیشن سے واسطہ پڑا جو بات سننے کیلئے تیار نہ تھی۔ اپوزیشن پارٹیوں نےPDMبناکر احتجاج کی سیاست شروع کی جس میں لانگ مارچ اور اسمبلیوں سے مستعفی ہونا بھی شامل تھا۔ اب لانگ مارچ ملتوی کر دیا گیا ہے جبکہ پیپلز پارٹی نے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے سے انکار کر دیا ہے۔ اس طرح اپوزیشن انتشار کا شکار ہو چکی ہے۔ میں اپوزیشن کے انتشار سے خوش نہیں ہوں جبکہ لانگ مارچ نہ کرنے کا فیصلہ اور اسمبلیوں سے مستعفی نہ ہونے کا اعلان خوش آئند ہے۔ اپوزیشن کا حق ہے کہ وہ اسمبلیوں کے اندر اور باہر حکومت پر تنقید کرے تاکہ حکومت کی اصلاح ہو سکے۔ حکومت اوراپوزیشن پارلیمنٹ کے اندر لڑائی کرتی ہے اور مذاکرات بھی کرتی ہے۔ بدقسمتی سے موجودہ اپوزیشن مذاکرات سے انکاری ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بےشمار مرتبہ اہم امور پر مذاکرات کی دعوت دی ہے جبکہ گزشتہ روز بھی وزیر اعظم نے اسپیکر قومی اسمبلی کو خط لکھا ہے جس میں پارلیمانی پارٹیوں پر مشتمل کمیٹی بنانے کی درخواست کی گئی ہے۔ خط کے مطابق آئندہ آنے والے الیکشن کو شفاف بنانے کیلئے انتخابی اصلاحات ناگزیر ہیں۔ عمران خان کے خط پر مثبت ردعمل کی ضرورت ہے۔اپوزیشن اتحاد کو آصف زرداری کے ’’زور دار‘‘ بیان پر دل برداشتہ نہیں ہونا چاہئے، اس کی بجائے مثبت رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ آئیے مذاکرات کا دروازہ کھولیں۔ یاد رکھنا چاہئے کہ سیاستدانوں نے ہمیشہ مذاکرات کئے ہیں۔ جمہوریت برداشت اور مشاورت کا نام ہے۔ سیاست گلے ملنے کا نام ہے۔ سیاست میں کوئی فیصلہ حتمی نہیں ہوتا جہاں راستہ بند ہوتا ہے وہاں سیاستدان نئی راہ کھول لیتے ہیں۔ اسی لئے جمہوریت کو آگے بڑھانے کیلئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو نکالنے کی بات ختم کردینی چاہئے۔ پارلیمنٹ کو چلانا چاہئے۔ ویسے بھی یاددہانی کیلئے گزارش ہے کہ ARDنے اپنے چارٹرکے آرٹیکل 21میں کہا تھا کہ
" We will respect the electoral mandate of representative governments that accepts the due role of the opposition and declare neither shall undermine each other through extra constitutional ways".
جبکہ ARDچارٹر کے آرٹیکل 22میں کہا گیا تھا کہ
" We shall not join a military regime or any military sponsored government. No party shall solicit the support of military to come into power or to dislodge a democratic government".
پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کو اپنے چارٹر کا احترام کرنا چاہئے، تحریک انصاف کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنا چاہئے اور کھلے دل کے ساتھ پانچ سال حکومت کرنے کی بات کرنی چاہئے یہی جمہوریت کا حسن ہے۔ PDMکی ناکامی پر شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ صحیح راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ تحریک انصاف نے پہلی دفعہ حکومت حاصل کی ہے PMعمران خان 31ماہ سے ملک اورقوم کوآگے لے جانے کی کوشش کررہے ہیں۔ الیکشن اصلاحات کے ساتھNFCایوارڈ پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ 18ویں آئینی ترمیم پر دوبارہ غور کرنا چاہئے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ 2008میں پیپلزپارٹی کی حکومت آئی تو انہوں نے NAB قوانین میں کوئی تبدیلی نہیں کی جبکہ 2013میں مسلم لیگ (ن)کی حکومت آئی تو انہوں نے بھی احتسابی قوانین کو برقرار رکھا۔ 18ویں آئینی ترامیم میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی گئیں لیکن NABکو نہیں چھیڑا گیا۔ اب اس پر ضد کی کیا ضرورت ہے؟۔ جمہوریت اور مذاکرات میں ایک نکتہ پر اختلاف ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ دیگر اہم معاملات کو بھی موخر کر دیا جائے۔ تحریک انصاف نے صرف اور صرف احتساب کے نعرہ پر انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ اس لئے عمران خان کیلئے احتساب پر کوئی Compromiseکرنا ناممکن ہے۔ مزیدیہ کہ وہ مہنگائی اور دیگر مسائل کی وجہ ماضی کی کرپشن کو سمجھتے ہیں۔ سیاست میں کسی کی ہار اور جیت نہیں ہوتی ایک قدم پیچھے ہٹنا ملکی مفاد ہو تو ہٹ جانا چاہئے۔ ملک کی جیت ہونی چاہئے۔ جمہوریت کو کامیاب ہونا چاہئے۔ پارلیمنٹ کو پھلنا پھولنا چاہئے۔ ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام ہونا چاہئے۔ قانون اور آئین کی بالادستی ہونی چاہئے۔ آخر میں پھر گزارش کرتا ہوں کہ کوئی ضد اور انا کے بغیر ’’آئیے مذاکرات کریں‘‘ کا دروازہ کھولیں کیونکہ اسی میں ملک کا مفاد ہے۔