یہ دسمبریں رُت کی خنک، گلابی دھوپ میں ہُمکتے، اُن دل نواز لمحات کی بازآفرینی ہے، جب ہم نے اپنے شہر اوچ شریف کے محلّہ بخاری میں تاریخی مقبرے، ’’مقبرہ بی بی جیوندی‘‘ کی زیارت کا قصد کیا۔ اونچائی پر واقع، شہرِ خموشاں کے بیچوں بیچ اپنے ہم عصر دیگر مقبروں کے ساتھ بی بی جیوندی کا مقبرہ اپنی عظمت اور دل کشی کے ساتھ ہماری نظروں کے سامنے آیا، تو یوں لگا، جیسے تاریخ نے اپنے اَن مٹ نقوش اِس پُرشکوہ مقبرے کی معدوم ہوتی بنیادوں میں چھوڑ دیے ہوں۔ اوچ کی تاریخ و ثقافت کے حوالے سے مستند تصنیف ’’خطّہ پاک اوچ‘‘ کے مصنّف، مسعود حسن شہاب کے مطابق ’’بی بی جیوندی کا اصل نام بی بی جند وڈی تھا۔
آپ حضرت سیّد جلال بن سیّد حمید کی دخترِ عالیہ تھیں، جو برصغیر کے عظیم صوفی بزرگ حضرت سیّد جلال الدین سرخ پوش بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے فرزندسیّد بہائوالدین کی اولاد میں سے تھے۔ بی بی جیوندی بڑی عابدہ، زاہدہ، مستجاب الدعوات صالحہ خاتون تھیں۔ 805ہجری میں انہوں نے داعئ اجل کو لبّیک کہا اور تقریباً 95برس بعد 900ہجری میں خراسان کے فرماں روا، محمّد دلشاد نے اوچ شریف کے سب سے اونچے مقام پر ان کا مقبرہ تعمیر کروایا۔ بلاشبہ، یہ عظیم الشّان مقبرہ اپنے زمانے کے ممتاز معمار، نوریا کے حُسنِ خیال اور دستِ ہنر کا لاجواب شاہ کار ہے۔
آپ کے والد، حضرت سیّد جلال الدین سُرخ پوش بخاری، بخارا کی سکونت چھوڑ کر کچھ عرصہ ایران میں گزارنے کے بعد ہندوستان تشریف لے گئے۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب سمرقند و بخارا پر تاتاریوں کی یلغار شروع ہوچکی تھی، لیکن ان علاقوں میں آپ کے خانوادے کا کافی اثرو رسوخ تھا۔ خراسان کا فرماں روا، محمد دلشاد بھی آپ کا معتقد تھا۔933ہجری میں دریائے گھارا میں آنے والے سیلاب اور طغیانی کے نتیجے میں اس شان دار مقبرے کا نصف حصّہ ڈھے گیا، تو باقی آدھے حصّے کو محکمۂ آثار قدیمہ کی جانب سے آہنی سلاخوں سے سہارا دے کر حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔
تاہم، صدیاں گزرنے کے باوجود یہ مقبرہ اپنی خُوب صُورتی اور حُسنِ صناعی کے اعتبار سے آج بھی جاذبِ نظرہے اور دعوتِ نظارہ دیتا نظر آتا ہے۔ بلاشبہ یہ ملتانی کاشی گری کے نفیس اور پائیدار کام کا عجیب و غریب شاہ کار ہے۔ مقبرے کی تعمیر ہشت پہلو ہے اور ہر پہلو پر ایک مخروطی مینار تعمیر کیا گیا ہے۔ پختہ اینٹوں سے تعمیر شدہ اس مقبرے کا طرزِ تعمیر (سوائے گنبد کے) ملتان کے معروف مقبرئہ حضرت شاہ رکنِ عالم سے مشابہت رکھتا ہے۔ حضرت بی بی جیوندی کے مقبرے کو فیروزی، سفید اور نیلے رنگوں کی کاشی گری سے مزیّن کیا گیا ہے، جس میں جا بہ جا گُل کاری اور جیومیٹری کے ڈیزائن نظر آتے ہیں۔
ازمنہٴ وسطیٰ کے مسلمان فن کار اور نقّاش مساجد، مزاروں اور محلّات میں دیدہ زیب کاشی کاری کے نمونے بنانے کے لیے ریاضی کے اصول استعمال کیا کرتے تھے۔ اسلامی نقش و نگار کے ایک جیسے نمونے فاصلوں اور وقت کی قید سے آزاد، تمام اسلامی دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ حضرت بی بی جیوندی کا مزار بھی سجاوٹ کے لحاظ سے اپنے دَور کے تعمیراتی شاہ کاروں میں اپنی مثال آپ ہے۔ باہر سے یہ مقبرہ جتنا پُرشکوہ اور پُر جلال ہے اندر سے اتنا ہی خستہ حال ہے۔ وقت نے اسے بڑی تیزی سے کھنڈرات میں تبدیل کردیا ہے۔ اِس کی خستہ حالی اور منہدم ہوتے آثار، وقت کی ستم ظریفی اور انتظامیہ کی عدم توجّہی کا مرثیہ پڑھتے نظر آتے ہیں۔
آج صورتِ حال یہ ہے کہ اس تاریخی مقام کا کوئی پرسان حال ہے، نہ ہی مزار کی زیارت کرنے والے زائرین کی رہنمائی کے لیے افراد متعیّن ہیں۔ البتہ محکمۂ آثارِ قدیمہ کی طرف سے ایک بورڈ ضرور نصب کیا گیا ہے۔ اس زنگ آلود بورڈ میں انتہائی مختصر طور پر محض چند سطروں میں مقبرے کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔
اس کے علاوہ عوام النّاس کے لیے کسی قسم کا کوئی سائن بورڈ یا مزار کے حوالے سے تاریخی معلومات وغیرہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ خوب صورت کاشی گری سے مزیّن دیواریں اور محرابیں، جو کسی زمانے میں، اپنے معمار کی محنت اور مہارت کا اظہار کرتی تھیں، اب اجڑی اور ویران حالت کا نوحہ پیٹتی، ٹوٹ پھوٹ کا شکار نظر آتی ہیں۔
اوچ شریف کی تاریخی عمارتوں کو بچانے کے لیے اوچ مونومنٹ کمپلیکس بھی قائم کیا گیا، لیکن اس کا بھی عملی کردار کہیں نظر نہیں آتا۔ واضح رہے کہ 1998ء میں اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے، یونیسکو کے ورلڈ ہیریٹیج سائٹ نے مقبرہ بی بی جیوندی سمیت اوچ شریف کے چار مقامات کو اپنی واچ لسٹ میں شامل کیا، جب کہ فنِ تعمیر کے بے بدل شاہ کار، مقبرہ بی بی جیوندی کی تاریخی اہمیت کی وجہ سے امریکن ایکسپریس کمپنی نے اوچ شریف کو ’’اولڈ بگ سٹی‘‘ کا خطاب بھی دیا۔
ملتانی فنِ تعمیر کا شاہ کار یہ مقبرہ 2000ء میں دنیا بھر کی قدیم تاریخی عمارات کی فہرست میں درج تھا۔ امریکی قونصل خانے کے برائن ڈی ہنٹ نے 2006ء میں، جب کہ پیٹرسن نے 2008ء میں اس شہر کا دورہ کیا اور اس کے عظیم تاریخی وَرثے کو محفوظ کرنے کے لیے پچاس پچاس ہزار ڈالرز کا عطیہ بھی دیا، لیکن بدقسمتی سے اس عطیے کا عشرِ عشیر بھی اوچ کے ان آثارِ قدیمہ پر نہیں لگایا گیا۔ علاوہ ازیں، مالی سال 2020-21ء کے صوبائی بجٹ میں حکومت پنجاب نے اس تاریخی مقبرے کی بحالی و مرمّت کے لیے ایک کروڑ روپے کی خطیر رقم مختص کی تھی۔ تاہم، اس کا بھی کوئی اتا پتا نہیں۔
یہ المیہ ہے کہ ہم اپنے تاریخی و ثقافتی وَرثے کے تحفّظ میں بُری طرح ناکام نظر آتے ہیں۔ تاریخ کی ایسی شان دار تہذیبی نشانی کی زبوں حالی پر دل دُکھتا ہے۔ ماضی کایہ عالی شان مقبرہ حکومت کی بے توجّہی کا گلہ کرتا نظر آتا اور ہر آنے والے کو اپنے فنا ہونے کی داستان سناتا ہے۔