• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ﷲ جو انسان سے ستر مائوں سے زیادہ محبت کرتاہے ، وہ انسان کو تکلیف سے کیوں گزارتاہے ؟ حدیث ہے کہ ﷲ کی محبت/رحمت کے سو حصوں میں سے ایک حصہ مخلوقات کے دل میں اتارا گیا ہے ۔ اسی کی وجہ سے درندے بھی اپنی اولاد سے محبت کرتے ہیں ۔صحیح مسلم 2752-c۔ اسی محبت کے بارے میں ﷲ کہتا ہے کہ میں نے تمہارے دلوں میں محبت اتاری اور اگر تم دنیا کی ساری دولت بھی خرچ کر لیتے تو یہ محبت پیدا نہ کر سکتے ۔ محبت پیدا ہوتی ہے ، دماغ کے دو خلیات (دو نیورانز) کے درمیان کنکشن بننے سے اور یہ وہ جگہ ہے ، جہاں کوئی دوا بھی پہنچ نہیں سکتی۔

خدا یہ کہتا ہے کہ میں حشر کے میدان میں یہ محبت اٹھا لوں گا۔ تب ماں بیٹے کو پہچاننے سے انکار کر دے گی اور بیٹا باپ کو۔ دنیا میں بھی ہم اس کا نظارہ کر سکتے ہیں۔ بلّی کے بچّے جیسے ہی ایک خاص عمر کو پہنچتے ہیں تو انہیں ہر آفت سے بچانے والی ماں اچانک بدل جاتی ہے اور انہیں چھوڑ کر بھاگ جاتی ہے ۔نفس جو کہ جبلتوں کا مجموعہ ہے، اس میں صرف اپنی ذات سے انتہائی شدید محبت ہوتی ہے۔ یہ کبھی دوسروں کی خاطر زحمت اٹھانا پسند نہیں کرتا۔ماں باپ اس کے برعکس ساری زندگی ایثار پر تلے رہتے ہیں ۔ پھر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جو خدا 70 مائوں سے زیادہ محبت کرتا ہے، وہ انسان کو کسی بھی تکلیف میں نہ ڈالتا لیکن اس دنیا میں ہر جگہ، ہر قدم پر ہمیں تکلیف نظر آتی ہے۔کیا آپ اس کی وجہ جانتے ہیں؟

وجہ یہ ہے کہ خد ا جانتاہے اور ماں نہیں جانتی ۔خدا اور ماں کی محبت میں بنیادی فرق علم کا ہے۔ خدا بندے سے 70 مائوں سے زیادہ محبت کرتا ہے لیکن وہ کروڑوں اربوں مائوں سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتے لیکن جتنا وہ چاہے‘‘۔انسانوں میں سے بھی کسی کے پاس جب تھوڑا بہت علم آتا ہے تو اس کا طرزِ عمل بالکل ہی بدل جاتا ہے۔ ڈاکٹر جب انجکشن لگانے کا کہتا ہے تو بچّے کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ انجکشن نہ لگوائے۔ وہ بھاگنے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہی ماں، جو اس کے پائوں میں کانٹا چبھتے نہیں دیکھ سکتی، وہ اسے پکڑ کے انجکشن لگواتی ہے۔ اس وقت بچّہ ان سے ناراض ہو جاتاہے ۔اسی طرح انسان تکلیف پہنچنے پر خدا سے ناراض ہو جاتاہے ۔ وہ یہ نہیں جانتا کہ تکلیف ہی سے انسان کندن بنتاہے ۔ آپ دنیا کے ہر عظیم شخص کی زندگی کا مطالعہ کرلیں۔ آپ کو غیر معمولی تکلیف نظر آئے گی۔دنیا میں سب سے زیادہ تکالیف رسالت مآبؐ کو پہنچیں۔ دنیا میں تشریف لانے سے قبل والد اور کمسنی میں والدہ محترمہ چھوڑ گئیں۔توماں جانتی ہے کہ بچّے کو تکلیف تو ہو گی لیکن اس تکلیف میں اس کے لیے بہت فائدہ ہے۔ اس کے برعکس ایسی ماں کو آپ کیا کہیں گے، جو بیمار بچّے کو انجکشن کی تکلیف سے بچانے کے لیے معالج کے پاس نہ لے کر جائے؟

خدا نے یہ دنیا آزمائش کے لیے بنائی ہے۔ اس کا علم مکمل ہے۔ بہت سے لوگوں کو ہم دیکھتے ہیں کہ جب تک وہ تکلیف اور آزمائش میں رہتے ہیں، ان کا روّیہ بہتر ہوتا ہے۔ جیسے ہی دولت اور منصب ملتا ہے، وہ دوسروں کے لیے تکلیف کا باعث بن جاتے ہیں۔کئی مظلوم ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے حالات ٹھیک ہو جائیں تو وہ اپنے سے نیچے والوں کے لیے بڑے ظالم بن جاتے ہیں ۔ ایک منکسر مزاج آدمی اچھی نوکری ملتے ہی پھنے خان بن جاتا ہے۔

عرب جب تک فاقہ کشی کا شکار تھے ، دنیا ان کی ہیبت سے کانپتی تھی۔ تیل کی دولت میسر آئی تو دنیا و مافیہا سے بے گانہ ہو گئے۔ آزمائش دولت سے بہتر ہے۔ غربا کے بچّے امرا کی نسبت بہت سخت جان ہوتے ہیں اور سخت جانی اس دنیا میں ایک بہت بڑا سرمایہ ہے۔ سہولت کے عادی زندگی میں کہیں ایڈجسٹ نہیں کر پاتے ۔خدا کا طریق یہ ہے کہ مصیبتوں اور تکلیفوں سے گزار کر وہ انسان کو سخت جان بنا دیتا ہے۔ بندے کی استطاعت (Capacity) میں انتہائی اضافہ ہو جاتا ہے۔

خدا کہتا ہے کہ میں کسی پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا‘ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں اپنی استطاعت کا علم ہی نہیں۔ بہت سے لوگ، جو ابتدا میں کسی معمولی تکلیف پر واویلا کرتے ہیں، بعد ازاں سالہا سال تکلیفوں سے گزرتے ہیں۔ جس بیٹی کو انسان بٹھا کر کھلاتا ہے، وہ سسرال میں بیس بندوں کا کھانا بنا رہی ہوتی ہے۔ ہر انسان نے گندم کا جو دانہ کھانا ہے، پانی کا جو قطرہ پینا ہے، آکسیجن کے جس ایٹم سے سانس لینا ہے، لوہے کی جس گاڑی پر سفر کرنا ہے اور اس میں تیل کا جو قطرہ جلنا ہے، وہ سب خدا نے مقرر کر رکھا ہے ۔ یہ سب 70 مائیں ہی مل کے کر سکتی ہیں۔

وزن اٹھانے والی گاڑی پر کمپنی یہ لکھ دیتی ہے کہ یہ 800 کلو وزن برداشت کر سکتی ہے۔ لفٹ پر بھی لکھا ہوتا ہے، 10 افراد، 1 ہزار کلوگرام ۔ بعض لوگوں کی استطاعت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ موت کے منہ میں وہ خدا کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ معمولی پریشانی پر خودکشی کر لیتے ہیں ۔ خدا ستر مائوں جتنی محبت ضرور کرتا ہے لیکن وہ صرف ماں ہی نہیں،سب سے بڑا استادبھی ہے اور منصف بھی۔ہم ایک دنیا کے پسِ منظر میں سوچتے ہیں ، وہ دو دنیائوں کے ریفرنس میں۔ بہرحال اس کا رحم و کرم اس کے عدل پر حاوی ہے۔خدا نے اپنی محبت کے 99حصے حشر کے لیے سنبھال رکھے ہیں۔

تازہ ترین