اسلام آباد (فاروق اقدس) پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کی دو بڑی جماعتوں کی موجودگی میں تیسری جماعت کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اپنی سیاسی حکمت عملی اور معاملہ فہمی کے باعث اپوزیشن کے رہنماؤں اور بڑی جماعتوں کے قائدین میں ’’مرکزیت اور اہمیت‘‘ اختیار کر گئے ہیں،پی پی اور ن لیگ مخالفانہ بیان بازی کے دوران مولانا فضل الرحمٰن نے صورتحال کو سنبھال لیا ہے اور یہ انکی سیاسی بصیرت کا ہی کمال ہے کہ پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان سینٹ میں اپوزیشن لیڈر کے حوالے سے جو دوریاں اختلافات کی شکل اختیار کر رہی تھی اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور مسلم لیگ نون کی نائب صدر مخالفانہ بیانات کی حد تک ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئے تھے۔ مولانا فضل الرحمان نے دونوں کے درمیان ’’سیاسی بڑے‘‘کا کردار ادا کرتے ہوئے میاں نواز شریف اور آصف زرداری سے رابطوں کے بعد صورتحال کو سنبھال لیا اور آج پاکستان پیپلزپارٹی نے 26 مارچ کو نیب میں مریم نواز کی پیشی کے موقع پر اظہار یکجہتی کیلئے انکے اجتماع میں شریک ہونے کا اعلان کر دیا، یہی وجہ ہے کہ حکومتی ترجمان اور وہ وزراء جو بدھ کی دوپہر تک مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کو تنہائی اور مولانا فضل الرحمان کو انکی ’’سیاسی بیساکھیوں‘‘ سے تعبیر کر رہے تھے اور طعنے دے رہے تھے، انکے بیانات میں جوش و خروش کا فقدان اور طرز عمل میں واضح تبدیلی محسوس کی گئی۔ ہو سکتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی یہ اہمیت محض صورتحال کے متقاضی ہو اور اس بات کی بھی کوئی ضمانت نہیں کہ حالات کے بدلنے ساتھ ہی مولانا کی موجودہ اہمیت اور ضرورت بھی ثانوی رہ جائے لیکن فی الوقت تو یہ حقیقت ہے کہ اس وقت پاکستان مسلم لیگ (ن) پارلیمانی ایوانوں میں نمائندگی رکھنے والی اپوزیشن کی پہلی اور پاکستان پیپلز پارٹی دوسری جماعت ہے جبکہ جے یو آئی کا شمار پارلیمانی ایوانوں میں تیسرے نمبر پر کیا جاتا ہے البتہ سڑکوں پر احتجاج کیلئے افرادی قوت کے اعتبار سے جے یو آئی نے ایک سے زیادہ مرتبہ اپنی برتری تسلیم کرائی ہے‘ 26مارچ کو مسلم لیگ نون کے بعد جے یو آئی وہ جماعت ہوگی جو افرادی قوت کے حوالے سے سرفہرست ہو گی۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مسلم لیگ نون سے اظہار یکجہتی کیلئے جے یو آئی کی نمائندگی مولانا عبدالغفور حیدری اور مولانا فضل الرحمان کے صاحبزادے اسعدالرحمن جو قومی اسمبلی کے رکن بھی ہیں کرینگے۔ اس طرح مولانا فضل الرحمان نے اپنے صاحبزادے کو سیاسی سطح پر متعارف کرانے کا بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا ہے جبکہ خود مولانا فضل الرحمان اسلام آباد یا ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹی وی پر 26 مارچ کے تمام مناظر دیکھیں گے۔