• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کتنی عجیب سی بات ہے کہ یہ دنیا عہد جدید میں داخل ہوئی تو یورپ کی وجہ سے کیونکہ امریکہ بھی دراصل یورپ ہی کی ایکسٹینشن ہے۔ایجاد، اختراع، تحقیق اور تخلیق کے سارے چشمے وہیں سے کیوں جاری ہوئے؟ باقی دنیا کہاں اور کیوں سوئی رہی ؟اور آج تک بھی نقالی پر ہی گزر بسر کیوں کر رہی ہے؟

15ویں صدی کے اختتام تک یورپ اہم ترین عسکری، سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی مرکز میں تبدیل ہو کر 1500سے 1750تک مزید متحرک ہو کر امریکی براعظم اور سمندروں پر حکمران کیسے ہو گیا؟ حالانکہ عظیم ایشیائی طاقتیں یعنی سلطنت عثمانیہ، ایران (فارس) میں صفوی، ہندوستان میں مغل حکمران اورچین میں منگ اور قن حکومتیں ’’عروج‘‘ پر تھیں ۔1775ء میں دنیا کی 80فیصد اقتصادیات ایشیا کے گرد گھومتی تھی۔یہاں تک کہ صرف ہندوستان اور چین کی اکانومی ملا کر دنیا کی دو تہائی پیداوار پر محیط تھی جس کے مقابلے میں یورپ ’’اقتصادی بونا‘‘ تھا لیکن 1750ء سے 1850ء تک صرف 100سال میں تمام تر طاقت کا مرکز یورپ منتقل ہو گیا جب اس نے مرحلہ وار کئی جنگوں میں شکست دے کر ایشیا کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا۔ 1900ء تک یورپ دنیا کی اکانومی اور بیشتر رقبہ پر حاکم تھا ۔1950ء تک مغربی یورپ اور امریکہ مشترکہ طور پر عالمی پیداوار کا 50فیصد پیدا کر رہے تھے جبکہ چین کا حصہ گھٹتے گھٹتے 5فیصد رہ گیا تھا۔ نئے عالمی قواعد وضوابط و ثقافت انگڑائی لے رہی تھی۔ آج لباس، سوچ، خوراک، بودوباش، فلموں، کھیلوں، طب، سیاست، جنگ وغیرہ وغیرہ کے حوالوں سے سب ’’گورے‘‘ ہیں اور ’’مزید گورا‘‘ ہونے کی ریس میں مبتلا ہیں چاہے ’’کالے‘ بورے اور پیلے ‘‘ ہی کیوں نہ ہوں۔

ہوا یوں کہ جب یورپ، امریکہ اور بالخصوص سمندروں کو فتح کر رہا تھا تو ایشیائی طاقتوں کو سمندری دنیا سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اور اگر ہم اس سے بھی پیچھے جائیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ جو سمندری جہاز، بیڑے دور دراز کے ساحلوں کےسفر پر نکلتے تھے ان کا آدھا عملہ اس سفر میں ہلاک ہو جاتا تھا ۔نہ بحری قذاق تھے نہ سمندری طوفان نہ سفری صعوبتیں بلکہ یہ ’’اسکروی ‘‘ نام کی ایک ’’سمندری بیماری ‘‘تھی جس کا شکار ہونے والوں کے مسوڑوں اور دوسرے ریشوں سے خون نکلنے لگتا۔وہ بخار او ریرقان میں مبتلا ہو جاتے، ہاتھوں، پیروں کی حرکت قابو میں نہ رہتی، دانت گرنے لگتے اور کھلے زخم نمودار ہونے لگتے۔16ویں سے 18ویں صدی کے درمیان جب دنیا کی آبادی آج سے کہیں کم تھی، اس موذی مرض ’’اسکروی‘‘ کے نتیجہ میں تقریباً 20لاکھ ملاح ہلاک ہوئے ۔کوئی علاج کارگر نہ تھا لیکن 1747ء میں یہ صورتحال اس وقت تبدیل ہو گئی جب ایک برطانوی طبیب جیمز لِنڈ نے اس بیماری میں مبتلا ملاحوں پر کھٹے پھل کھلانے کا کامیاب تجربہ کیا لیکن لِنڈ کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ کھٹے پھلوں میں وہ کون سا جزو ہے جو کام دکھا رہا ہے ۔دراصل یہ وہ شے تھی جسے آج ہم وٹامن سی کے نام سے جانتے اور استعمال کرتے ہیں سو اگر ہم کہیں کہ ’’امیر البحر وٹامن سی‘‘نے یورپ کو سمندروں پر واضح برتری دلائی تو شاید بہت زیادہ غلط نہیں ہوگا ۔اسی کے نتیجہ میں بحریہ کے اک اعلیٰ افسر اور ماہر اراضیات کک نے برطانیہ کیلئے کئی علاقے اور جزائر فتح کئے اور دنیا کے سمندروں پر برطانوی بحریہ کی حکمرانی کا راستہ ہموار کر دیا ۔ان علاقوں میں سب سے معروف آسٹریلیا ہے ۔پھر تسمانیہ اور نیوزی لینڈ کی فتح اور ان علاقوں میں لاکھوں اہل یورپ کی آبادکاری اور مقامی ثقافتوں بلکہ آبادیوں تک کا خاتمہ ۔جسے ہم اکثر ’’سازش‘‘ کہہ کر گزر جاتے ہیں وہ سازش نہیں سمندروں پر حکمرانی قائم کرنے کی جان لیوا، پر صعوبت اور طویل جنگ تھی جس کی داد نہ دینا خود اپنے ساتھ زیادتی بلکہ ظلم ہو گا ۔پھر رہی سہی کسر اس وقت پوری ہو گئی جب 1850ءکے لگ بھگ عسکری، صنعتی اور سائنسی اشتراک کا آغاز ہوا ۔جیمز کک کی مہم جوئی سے پہلے چینیوں، عثمانیوں اور گوروں میں تکنیکی فرق زیادہ نہ تھا لیکن آسٹریلیا کی مہم جوئی جیمز کک نے کی کسی کپتان حسین پاشا یا کپتان ژیان چی نے کیوں نہیں ؟ عسکری، صنعتی، سائنسی اشتراک یورپ میں بڑھا برصغیر میں کیوں نہیں ؟ جب برطانیہ لمبی جست لگا کر آگے بڑھا تو فرانس،جرمنی، امریکہ نے فوراً تقلید کی، چین نے نہیں ۔جب صنعتی اور غیر صنعتی دنیائوں کے درمیان فرق بڑھا تو روس، اٹلی، امریکہ چونک گئے جبکہ مصر، ایران، ہندوستان اور تب کا عظیم ترکی خواب خرگوش کے مزے لیتے اور اپنے ہی خراٹوں کا میوزک سنتے رہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ آج تک یہی کچھ کر رہے ہیں۔

مختصراً یہ کہ کامیابیوں اور ناکامیوں کے پیچھے سلگتے سوالوں کا طویل سلسلہ ہوتا ہے جن پر غور کرنا چاہئے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین