غزہ پر اسرائیل کی بھاری بمباری نے نہ صرف عمارت اور اسپتالوں کو تباہ کیا ہے بلکہ اَن تک جاتی تقریباً تمام سڑکوں کو بھی نیست و نابود کر دیا ہے۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ ہر حملے کے بعد لاشیں اُٹھانے اور زخمیوں کو اسپتال پہنچانے کے ذرائع بھی مسدود ہوگئے ہیں۔
فضائی حملے مسلسل جاری ہیں اور غزہ کے بڑے رہائشی و تجارتی علاقے بجلی سے محروم ہوگئے ہیں۔ حتیٰ کہ چھوٹے موٹے دواخانوں میں بھی اندھیروں کا راج ہے اور زخمی تڑپ رہے ہیں۔
اب تک اسرائیلی فضائی حملوں میں کم از کم دو سے ڈھائی سو فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں جن میں درجنوں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں جب کہ حماس کے جوابی حملوں میں بہ مشکل دس اسرائیلی ہلاک ہوئے ہوں گے۔
تاریخی طور پر اسرائیل کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ اگر ایک اسرائیلی مارا جاتا ہے تو اس کے جواب میں دس سے بیس گنا زیادہ فلسطینی مار دیئے جاتے ہیں اور بربریت میں عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کی کوئی تمیز نہیں کی جاتی۔ پورے پورے خاندان تباہ کر دیئے گئے ہیں۔
گزشتہ دنوں تو اسرائیل نے میڈیا کو بھی نہیں بخشا اور غزہ میں الجلا ٹاور پر بھی فضائی حملے کرکے پوری عمارت تباہ کر دی جس سے بین الاقوامی صحافتی ادارے بھی اپنے دفاتر اور آلات سے محروم ہوگئے۔ تقریباً دو ہفتوں سے جاری اس اسرائیلی بربریت کا آغاز رمضان مبارک کے آخری ہفتے میں ہوا اور اسرائیل نے جمعتہ الوداع اور شب قدر کی پروا کئے بغیر حتیٰ کہ عیدالفطر کے مقدس ترین تہوار کو بھی نہ دیکھتے ہوئے فلسطینیوں کے ہزاروں مکان اور سیکڑوں خاندان تباہ کر دیئے ہیں۔
ان حملوں کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب اسرائیل نے شیخ جرح کے علاقے میں فلسطینیوں کو اُن کے گھروں سے بے دخل کرنے کا آغاز کیا۔ اس کے بعد تو جیسے اسرائیل بالکل بے لگام ہوگیا اور عمارتوں پر عمارتیں تباہ کرتا رہا۔ گو کہ امریکا نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ کے کثیر المنزلہ ٹاور پر فضائی حملوں کی وجوہات بتائے مگر اسرائیل ایسے کسی مطالبے کو ماننے پر تیار نہیں ہے۔
دیکھنے اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر چین میں کوئی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو چاہے اس کے ٹھوس شواہد موجود ہوں یا نہ ہوں امریکا واویلا مچانا شروع کر دیتا ہے جب کہ اسرائیل آج سے نہیں بل کہ گزشتہ پون صدی سے بار بار کھلم کھلا ایسے حملے کرتا رہا ہے جن میں بے گناہ اور نہیتے فلسطینیوں کی جانیں جاتی رہی ہیں لیکن امریکا صرف زبانی کلامی جمع خرچ سے ہی کام چلاتا رہا ہے اور یہی حال باقی دنیا کا ہے جس میں مسلمان اور عرب ممالک بھی شامل ہیں۔انجلا ٹاور پر حملے میں بین الاقوامی میڈیا سمیت ایسوسی ایٹڈ پریس اور الجزیرہ کے دفاتر بھی شامل تھے۔ ان کو تباہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ غزہ سے باہر وہ براہِ راست مناظر نہ دکھائے جاسکیں جن میں فلسطینی خاندانوں کو بے دردی سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔
نئے امریکی صدر جوبائیڈن کے برسراقتدار آنے سے قبل توقع کی جارہی تھی کہ امریکا اب اسرائیل کے بارے میں سابق صدر ٹرمپ کی پالیسی میں تبدیلی لائے گا اور نئے امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے اس بارے میں کچھ اشارے بھی دیئے تھے مگر اب لگتا ہے وہ تمام توقعات غلط تھیں کیوں کہ بلنکن نے کوپن ہیگن میں ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ وہ اب تک اسرائیلی حکام کی جانب سے کسی مثبت جواب سے آگاہ ہیں نہ ہی انہوں نے ان حملوں کو غیر قانونی قرار دے کر اُن کی مذمت کی ہے۔
اب اسرائیلی حملے ایک بڑے شہری سانحے کا روپ دھارتے جارہے ہیں اور سڑکوں اور عمارتوں کے علاوہ تقریباً تمام شہری سہولتیں شدید نقصان سے دوچار ہوئی ہیں۔ پانی، بجلی، گیس اور صحت وغیرہ کی سہولتیں بھی ناپید ہوچکی ہیں اور صحت وغیرہ کی سہولتیں جو غزہ میں پہلے ہی بری حالت میں تھیں اب مکمل تباہی کا شکار ہوچکی ہیں، کیوں کہ اسپتالوں تک رسائی بھی ناممکن ہوچکی ہے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ لوگ اپنے عزیز و اقارب کے لاشے اور زخمیوں کو اسٹریچر اور ہاتھوں میں اٹھائے ادھر ادھر بھاگتے نظر آتے ہیں۔ لگتا ہے کہ عالمی ضمیر اور نام نہاد عالمی برادری مکمل طور پر بے حسی کا مظاہرہ کررہی ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری نے ایک حیرت انگیز بیان میں دونوں فریقوں پر زور دیا ہے کہ وہ جنگ بندی کردیں اس طرح یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ جیسے یہ کوئی باقاعدہ جنگ ہے جو دو افواج کے مابین لڑی جارہی ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ فلسطینیوں کے پاس کوئی باقاعدہ فوج ہے اور نہ کوئی بحریہ یا فضائیہ جب کہ اسرائیل دنیا کی جدید ترین جنگی ٹیکنالوجی کا حامل ہے اور اپنے جدید ترین دفاعی نظام کی بدولت فلسطینی حملوں سے بھی بہت بڑی حد تک محفوظ ہے کیوں کہ فلسطینیوں کی طرف سے داغے جانے والے میزائیل فضا میں ہی تباہ کر دیئے جاتے ہیں۔
پھر غزہ کے پاور پلانٹ میں بھی ایندھن کی شدید کمی ہوچکی ہے جس سے صحت کے نظام پر مزید برا اثر پڑے گا۔ اس کے علاوہ تقریباً تمام فلسطینی شدید قسم کے ذہنی دبائو کا شکار ہوچکے ہیں کیوں کہ اسرائیل کی زیادہ تر فوجی کارروائیاں اب ڈرون ٹیکنالوجی کے ذریعے ہو رہی ہیں جو بہت تباہ کن ثابت ہوتی ہیں جس سے بچنے کا فلسطینیوں کے پاس کوئی راستہ نہیں۔
اسرائیل کے یہ مسلح ڈرون اپنی یادداشت میں فلسطینی علاقوں کے چپے چپے سے واقف ہیں اور بہت درست نشانوں پر حملے کرتے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے عام شہری آبادی کو اسرائیلی جان بوجھ کر نشانہ بنا رہا ہے۔ گو کہ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف عسکری مقاصد کیلئے استعمال ہونے والے مقامات کو نشانہ بنا رہا ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے کیوں کہ اس نے فلسطینیوں کے گنجان آبادی والے شہری علاقوں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔دوسری طرف حماس اور اسلامی جہاد نامی تنظیمیں ہیں جو اس تنازع میں کمزور ترین فریق ہیں اور ان کے پاس جو تھوڑے بہت ہتھیار ہیں ان سے اسرائیل کا بہت معمولی نقصان ہوتا ہے اور وہ کوئی موثر کارروائی کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ حماس نے کوئی ڈیڑھ ہزار راکٹ اسرائیل کی طرف داغے لیکن ان میں سے نوے فیصد راکٹ فضا میں قائم آہنی حصار کے باعث اس میں داخل نہ ہو سکے اور جو داخل ہوئے وہ بھی ادھر ادھر ضائع ہو گئے۔ یاد رہے کہ یہ آہنی حصار اسرائیل نے اربوں ڈالرز خرچ کر کے جدید ترین ٹیکنالوجی سے قائم کیا۔
دوسری طرف امریکا اسرائیل کو اقوام متحدہ میں بھی بھرپور مدد فراہم کر رہا ہے۔ چین نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ امریکا اقوام متحدہ کو بھی اس تشدد کے خلاف کھل کر بات کرنے کی اجازت نہیں دے رہا اور سلامتی کونسل ایک بے کار ادارہ بن چکی ہے جس کی کوئی آواز نہیں اس طرح کے تشدد اور جارحیت کو روکنے کی کوئی حکمت عملی بھی نہیں ہے۔
تقریباً تمام بڑے چھوٹے امیر غریب ممالک اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کر رہے اور صرف باتوں اور ایک دوسرے کو فون پر اکتفا کئے بیٹھے ہیں۔ اس سلسلے میں عالمی برادری کو اپنا ضمیر جھنجھوڑ کر جگانے کی ضرورت ہے اور صرف یہ کہنے سے کہ اسرائیل کو اپے دفاع کا حق ہے صورت حال مزید بگڑ رہی ہے۔
اسلامی ممالک بھی باتیں کر رہے ہیں ترک صدر اردووان نے پوپ فرانسس سے گفتگو تو کی ہے اور اسرائیل پر پابندی لگانے کی درخواست کی ہے گویا کہ پوپ اس سلسلے میں کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
اردووان اور پوپ کے درمیان فون پر گفتگو ان درجنوں فون کالوں میں سے ایک ہے جو عالمی لیڈر ایک دوسرے کو کر رہے ہیں۔یہ باتیں اشارہ کر رہی ہیں کہ عالمی طاقتیں اس بار بھی ماضی کی طرح صرف شور مچاتی رہیں گی اور فلسطینی بے یارو مددگار ہی اسرائیل کی جارحیت کا شکار بنتے رہیں گے۔