• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
5جون کی دوپہر اپنے دامن میں ناقابل فراموش لمحات سمیٹے ہوئے تھی۔ ایسے لمحات میں ہم نے پُرامن انتقالِ اقتدار کے حیات آفریں مناظر دیکھے۔ تقریباً چودہ سال بعد جناب نواز شریف ووٹوں کے ذریعے قائد ایوان تیسری بار چنے گئے جن کو 12/اکتوبر 1999ء کو بندوق کی نوک پر وزیراعظم ہاوٴس سے نکالا اور اذیت ناک مراحل سے گزارا گیا تھا۔ اُنہوں نے زندگی کے انتہائی صبر آزما چودہ سال بڑے وقار اور بڑی خود اعتمادی کے ساتھ بسر کئے اور ماضی کی غلطیوں کا اِدراک اور احساس کرتے ہوئے اِس نتیجے تک پہنچے کہ جمہوریت کی احیاء کے لیے سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کا مینڈیٹ بڑی فراخ دلی اور خوش اسلوبی سے تسلیم کرتے ہوئے احترام کا رویہ اختیار کرنا اور آمروں کے ہاتھ میں کھلونا نہیں بن جانا چاہیے۔ اِس احساس کی بنیاد پر محترمہ بے نظیر بھٹو اور جناب نواز شریف کے درمیان میثاقِ جمہوریت طے پایا  مگر بے نظیر صاحبہ اپنے عہد پر قائم نہ رہ سکیں اور اُنہوں نے جنرل پرویز مشرف کے ساتھ خفیہ مذاکرات کے ذریعے این آر او کا بت تراشا۔
چودہ برس بعد نواز شریف قومی اسمبلی میں ایک درخشندہ باب رقم کرنے آئے ہیں۔ اُنہوں نے میثاقِ جمہوریت میں جو عہد کیا تھا کہ وہ مینڈیٹ کا احترام کریں گے  اِس پر کامل ثابت قدمی سے جمے رہے۔ پیپلزپارٹی کو حکومت بنانے اور چلانے کا پورا پورا موقع دیا  حالانکہ اِس عرصے میں بڑے سخت مقام آئے۔ حکومت نے ایک طرف عدالت ِ عظمیٰ کے ساتھ محاذ آرائی شروع کر دی اور دوسری طرف عسکری قیادت میں تبدیلی کے لیے مہم جوئی کو بہت ہوا دی اور تیسری طرف کرپشن کے گیٹ کھول دیئے اور نااہل اور بدعنوان لوگ اعلیٰ مناصب پر براجمان کر دیئے۔ عوام بے روزگاری  مہنگائی اور بدامنی کے ہاتھوں کچلے گئے  مگر حکمران قومی اداروں کی تباہی اور بربادی کا تماشا دیکھنے اور ملکی معیشت کی زبوں حالی کا لطف اُٹھاتے رہے۔ اِن تمام خرابیوں کے باجود جناب نواز شریف نے ایک ذمے دار اپوزیشن کا جمہوری کردار ادا کیا اور فوج کو سیاسی معاملات میں دخل اندازی کا موقع نہیں دیا۔ اِس عظیم الشان تدبر  تحمل اور قوتِ برداشت کے نتیجے میں قومی اسمبلی اور حکومت نے اپنی پانچ سالہ آئینی مدت مکمل کی اور تاریخ میں پہلی بار پُرامن انتقالِ اقتدار کے حیات افروز مناظر دیکھنے میں آئے۔ سپیکر قومی اسمبلی محترمہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا اپنا عہد ِ اقتدار ختم ہونے پر کرسی ٴ صدارت خالی کر کے نیچے آ بیٹھیں اور اُن کی جگہ سردار ایاز صادق ایوان سے ووٹ لے کر بڑے وقار کے ساتھ سپیکر کی کرسی پر آ بیٹھے اور نئے قائد ِ ایوان کے انتخاب کا مرحلہ کسی تنازع کے بغیر تکمیل پذیر ہو گیا۔ ہماری تاریخ نے بہت بڑی کروٹ لی ہے۔ عوام کی طاقت سے جناب نواز شریف ایک بار پھر اقتدار کے امین مقرر ہوئے ہیں جبکہ جمہوریت پر شبخون مارنے والے حضرت مشرف عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہیں اور جلد اُن کی قسمت کا فیصلہ ہونے والا ہے۔
جناب نواز شریف وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے سے پہلے مسلم لیگ نون کے صدر کی حیثیت سے دو بڑے فیصلے کر چکے تھے جنہوں نے پاکستان کی سیاست کا رُخ ہی تبدیل کر کے رکھ دیا ہے اور اقتدار کو اقدار کے نظام میں ڈھالنے کی بنیادیں اُٹھا دی ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران تحریک ِ انصاف کے چیئرمین جناب عمران خاں اور اُن کے حواریوں کی طرف سے جناب نواز شریف پر نازیبا حملے کئے گئے۔ پیپلز پارٹی نے بھی انتہائی زہر ناک مہم چلائی اور عوام کو گمراہ کرنے کی پوری پوری کوشش کی  مگر گیارہ مئی کی نیم شب اُنہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کو معاف کرنے کا اعلان کر دیا اور یہ بھی کہہ دیا کہ وہ ذاتی طور پر صدر مشرف سے بھی درگزر کرتے ہیں اور کلین سلیٹ سے نئے دور کا آغاز کریں گے۔ نتائج آنے کے بعد خیبر پختونخواہ میں تحریکِ انصاف سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی  مگر اُسے حکومت سازی کے لیے دوسری جماعتوں کی حمایت درکار تھی۔ مولانا فضل الرحمن نے کسی تاخیر کے بغیر نواز شریف صاحب کو پیغام بھیجا کہ ہم دونوں جماعتیں مل کر حکومت بنا سکتے ہیں  مگر مسلم لیگ نون کے صدر نے اُن کی پیشکش مسترد کرتے ہوئے پبلک بیان دیا کہ حکومت سازی کا حق تحریکِ انصاف کو حاصل ہے اور ہم اُس کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے اُس کے ساتھ پورا پورا تعاون کریں گے۔ اِ س اعلان سے جمہوری اقدار میں اقتدار کو ڈھالنے کا عمل شروع ہو گیا اور محلاتی سازشوں کی جڑ کٹ گئی۔بلوچستان میں اِس واقعے سے کہیں زیادہ حیرت انگیز سیاسی معجزہ رونما ہوا۔ وہاں مسلم لیگ نون سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی کے طور پر سامنے آئی جبکہ پختونخواہ ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی نے دوسری اور تیسری پوزیشن حاصل کی ہے۔ جماعت کی اِس عظیم کامیابی میں اُس کے صوبائی صدر سردار ثناء الله زہری کی سیاسی کاوشوں کا بہت بڑا حصہ ہے۔ اِس کے علاوہ اِس پارٹی کے سینئر نائب صدر نوابزادہ چنگیز مری جن کا چھوٹا بھائی حربیار مری علیحدگی پسند ٹولے کے ساتھ ہے  اگر اُنہیں وزیر اعلیٰ بنا دیا جاتا  تو وہ علیحدگی پسند تحریک سے بڑی قوت اور دانائی سے نمٹ سکتے تھے  مگر جناب نواز شریف نے اقتدار قومیت پرست جماعتوں نیشنل پارٹی اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا۔ اب شورش زدہ بلوچستان میں پہلی بار ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے ہیں جن کا تعلق متوسط اور اعلیٰ تعلیم یافتہ گھرانے سے ہے۔ اِس طرح گورنری کا منصب جناب محمود خاں اچکزئی کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے جو منجھے ہوئے پارلیمنٹیرین اور صاحب نظر سیاست دان ہیں۔ اِس طرح یہاں ایک زبردست انقلاب رونما ہو چکا ہے اور اُسے قومی دھارے کی سیاست میں آنے کا موقع فراہم کر دیا گیا ہے جس سے جناب نواز شریف کی دور بینی اور ایثار کیشی کا ایک عظیم تاثر اُبھرتا ہے۔
نواز شریف کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کے مخدوم امین فہیم اور تحریکِ انصاف کے مخدوم جاوید ہاشمی کھڑے ہوئے جبکہ ایم کیو ایم  جمعیت علمائے اسلام ف  جماعت اسلامی  اے این پی نے وزارتِ عظمیٰ کے لیے مسلم لیگ نون کی حمایت کی۔ 244ووٹ حاصل کرنے کے بعد قائد ِ ایوان جناب نواز شریف نے سب سے پہلے اپنے رب کریم کا شکریہ ادا کیا اور اِس کے بعد اپنے ہم وطنوں اور ایوان کے عظیم دوستوں کا۔ اُن کی تقریر کا ایک ایک لفظ نپا تُلا اور حقیقت کا عکاس تھا۔ اِس کی سب سے بڑی خوبی اِس کا اختصار اور مدبرانہ اسلوب تھا۔ اِس تقریر میں جناب نواز شریف نے کہا کہ میں خیالی جنت کی تصویر کشی نہیں کروں گا اور عوام سے کچھ بھی نہیں چھپاوٴں گا۔ اُن کا مرکزی خیال یہ تھا کہ اقتدار ایک امانت ہے  میں خود اِس میں خیانت کروں گا نہ کسی کو کرنے کی اجازت دوں گا۔ اُنہوں نے کہا کہ میں اقربا پروری کے خاتمے کا اعلان کرتا ہوں اور ایک روشن پاکستان کے دریچے مزدوروں  محنت کشوں اور غریبوں کے لیے وا کر دیئے جائیں گے۔ اُنہوں نے تمام سیاسی جماعتوں کو شاخِ زیتون پیش کرتے ہوئے کہا کہ آوٴ ہم مل کر ایک مشترکہ قومی ایجنڈا ترتیب دیں اور وطن کی تعمیر میں جُت جائیں۔مجھے ایوان میں بیٹھے ہوئے یہ احساس ہوا کہ پارلیمانی قائدین مسائل کا حل چشم ِ زدن میں دیکھنا چاہتے ہیں حالانکہ اُنہیں حکومت کو کام کرنے کا موقع اور اُن کے لیے حمایت فراہم کرتے رہنا ضروری ہے۔ میں وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے پر جناب نواز شریف کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور اِس ٹیم کا بے تابی سے منتظر ہوں جو ہمارے لیے ایک حقیقی جنت تعمیر کریں گے اور عوام کو بتدریج لوڈ شیڈنگ  بدامنی  مہنگائی اور قرضوں سے نجات دلائیں گے۔
تازہ ترین