• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت نےآئی ایم ایف کو خوش کرنے کیلئے بجلی کے نرخ مرحلہ وار ’’صرف‘‘ 5روپے فی یونٹ بڑھانے کا منی بجٹ 700 ارب روپے کمانے کا پیش کر کے صدر مملکت سے فوراً منظوری حاصل کر کے آرڈ یننس جاری بھی کروا لیا تاکہ عوام اور حزب اختلاف شور نہ کر سکیں۔ 

یہی نہیں بلکہ آئی ایم ایف کے اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کے مطالبے جسے ماضی کی بدنام اور کرپٹ حکومتیں بھی مسترد کر تی رہیں، وزیر اعظم عمران خان نے یہ دبائو قبول کر کے حکومت کے تمام اداروں کے ہاتھ پیرباندھ دیئے اور انگریز حکومت کی طرح آئی ایم ایف نے اپنا وائسرائے مقرر کروادیا جسے پارلیمنٹ، ایف آئی اے، نیب کوئی بھی نہیں پوچھ سکے گا۔ 

حتیٰ کہ وزیر اعظم اور صدر بھی نہ اس کو ہٹا سکیں گے نہ پوچھ سکیں گے۔ دنیا کا یہ انہونا قانون صرف پاکستان میں نافذ العمل ہو گا۔ پی ڈی ایم والے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے تھے اور حفیظ شیخ اپنی شکست پر حکومت پاکستان سے بدلہ لینا چاہ رہے تھے۔ سو دونوں نے کامیابی آئی ایم ایف کے گلے میں ڈال دی قوم بھگتتی رہے گی۔

عوام کی بدقسمتی تو دیکھیں صدر مملکت عارف علوی نے فوراً آرڈیننس جاری کرنے میں کوئی دیر لگائے بغیر اپنے دستخط فرمادئیے۔ پاکستان کی سالمیت اور معیشت آئی ایم ایف اور اس کے نمائندوں کے ہاتھ صرف 50 کروڑ ڈالر میں رہن رکھ دی۔ 

گویا خود اپنے پائوں پر کلہاڑی مارلی۔ اب حکومت آئی ایم ایف سے مذاکرات اس کے نمائندوں یعنی اسٹیٹ بینک کے گورنر اور ڈپٹی گورنروں کی منظوری سے ہی کر سکے گی اور کوئی نوٹ بغیر ان کی مرضی کے حکومت پاکستان نہیں چھپوا سکے گی۔ تو پھر ہر ماہ سرکاری تنخواہیں، پنشن کیسے باقاعدگی سے ادا ہوں گی۔ 

وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرتے ہوئے انکم ٹیکس ترمیمی بل کی بجائے انکم ٹیکس ترمیمی آرڈیننس جاری کردیا ہے جس کے تحت 140 سے 150 ارب روپے تک کی ٹیکس چھوٹ ختم کی گئی ہے۔ یہ آرڈیننس فوری طور پر نافذ العمل ہوگا۔ آرڈیننس میں 62 اداروں کو ٹیکس کریڈٹ کی سہولت دے دی گئی ہے۔ 

پی سی بی سمیت کھیلوں کی تمام تنظیموں، فلم انڈسٹری کیلئے ٹیکس چھوٹ ختم کردی گئی ہے۔ آمدن کم ظاہر کرنے پر واجب الادا ٹیکس کا 50 فیصد جرمانہ عائد ہوگا۔ دکان پر ٹیکس نمبر آویزاں نہ کرنے پر 5 ہزار روپے جرمانہ عائد ہوگا۔ 

انکم ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے پر 5ہزار روپے جرمانہ ہوگا۔ نئی آئل ریفائنری لگانے پر صرف 31 دسمبر 2021 تک چھوٹ ہوگی۔ درسی کتابیں شائع کرنے والے بورڈز پر انکم ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ کئی انویسٹمنٹ کمپنیوں کے منافع پر انکم ٹیکس کی چھوٹ ختم کردی گئی ہے۔

انکم ٹیکس آرڈیننس کے تحت فاٹا اور پاٹا سے متعلق ٹیکس چھوٹ 30 جون 2023 کو ختم کی جا رہی ہے۔ قابل تجدید توانائی کے ذرائع سے بجلی کی پیداوار کیلئے سرمایہ کاری پر 25 فیصد ٹیکس کریڈٹ دینے کی تجویز ہے تاکہ نجی شعبے میں بجلی کی پیداوار بڑھائی جاسکے۔ 

ملک میں تیار ہونے والے موبائل فونز کی ملک میں فروخت پر ٹرن اوور ٹیکس کی چھوٹ دینے کی تجویز ہے تاہم موبائل فونز مینو فیکچررز کو انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کے نظام میں رجسٹر ہونے کی شرط سے یہ سہولت مشروط کی گئی ہے۔ دوسری جانب صدر مملکت نے نیپرا ایکٹ میں ترمیم کے آرڈیننس پر بھی دستخط کردیئے۔ 

آرڈیننس کے تحت بجلی کے صارفین پر مختلف مراحل میں مجموعی طور پر700ارب روپے سے زائد کا اضافی بوجھ پڑے گا تاہم پہلے مرحلے میں 140ارب روپے اضافی وصول کئے جائیں گے، آرڈیننس کے تحت حکومت بجلی کے بلوں پر 10فیصد سرچارج وصول کرسکے گی، اس سال ایک روپے 40پیسے فی یونٹ سرچارج عائد کیا جائے گا، آئندہ 2سالوں میں مزید دس، دس فیصد سرچارج عائد کیا جائے گا اور بجلی کی فی یونٹ قیمت کو ساڑھے 5روپے فی یونٹ تک بڑھایا جائے گا۔

اس آرڈیننس کا مقصد سرکلر ڈیٹ مینجمنٹ پروگرام پر عملدرآمد کرنا ہے جس کی منظوری وفاقی کابینہ پہلے ہی دے چکی تھی، آرڈیننس کے مطابق بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا عمل 2023 تک جاری رہے گا اور بجلی کے صارفین سے مجموعی طور پر 700 ارب روپے سے زائد اضافی رقم وصول کی جائے گی۔

آرڈیننس کے مطابق بجلی کی قیمتوں میں اضافہ سالانہ ٹیرف ایڈجسٹمنٹ اور سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کے تحت کیا جائے گا۔ 

واضح رہے کہ اس آرڈیننس کے تحت نیپرا کو خودمختاری مل گئی ہے جس کے بعد نپیرا بجلی کی قیمتوں میں اضافہ حکومت کی مشاورت کے بغیر بھی کر سکے گا۔ 

نیپرا سے منظور کردہ ٹیرف کا خود بخود اطلاق اس ماہ سے ہوگا۔ مزید کہا گیا ہے کہ بجلی سسٹم کو سالانہ 1400 ارب روپے حاصل کرنے ہیں اور سرکلر ڈیٹ کے مسئلے کے حل کیلئے سرچارج لگانا ضروری ہے۔ 

واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے دور میں سرچارج لگانے کا اختیار ختم کیا گیا تھا۔ اس سے زیادہ اب لکھنے کی ہمت نہیں ہے۔

تازہ ترین