• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد (انصار عباسی) زرداری نے پھر نوازشریف کے ساتھ ہاتھ کردیا ہے۔ ایک دہائی قبل بھی کہا تھا ن لیگ سے کیے گئے معاہدے قرآن و حدیث نہیں ہیں۔ جب بات اپنے مفادات کے تحفظ کی ہو چاہے وہ سیاسی نوعیت کے ہوں یا دیگر تو آصف زرداری کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ وہ وعدے کرکے توڑنے والوں میں جانے جاتے ہیں۔ 

ایک دہائی قبل نوازشریف کے مسلسل اصرار کو جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ن لیگ سے کیے گئے معاہدے قرآن و حدیث کی طرح مقدس نہیں ہیں۔ لہٰذا حالات کی تبدیلی کے ساتھ ان میں تبدیلی کی جاسکتی ہے۔ آج انہوں نے نوازشریف اور پی ڈی ایم کے ساتھ ایک مرتبہ پھر ایسا ہی کیا ہے۔ 

انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ ن لیگ کا سینیٹر ہی ایوان بالا میں اپوزیشن لیڈر بنے گا۔ تاہم، اس مرتبہ زرداری نے کچھ کہے بغیر ہی اپنے امیدوار کو اپوزیشن لیڈر بنواکر ن لیگ اور پی ڈی ایم کو مشتعل کیا۔ زرداری نے پی ڈی ایم کے مستقبل کو بھی دھمکایا۔ 

اگر وہ الائنس چھوڑتے ہیں تو یہ پی ڈی ایم کے لیے دھچکہ ہوگا۔ تاہم، اگر پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کا حصہ رہتی ہے تو سابق صدر یا تو اسے اپنی مرضی کے مطابق اپنے مفاد کے تحت چلائیں گے یا الائنس کو غیریقینی صورت حال میں چھوڑ دیں گے۔ 

ن لیگ کے رہنما کے مطابق، پی ڈی ایم کے آخری اجلاس میں زرداری اس الائنس کو توڑنے کی سوچ کے ساتھ آئے تھے۔ زرداری پر الزام ہے کہ انہوں نے ان لوگوں سے صلح کی ہے جو ان کے لیے اہم ہیں اور انہوں نے نوازشریف اور مولانا فضل الرحمان کے اقدامات کو متاثر کرنے کی کوشش کی ہے۔ 

زرداری کی سربراہی میں پیپلزپارٹی نا صرف پی ڈی ایم بلکہ بہت سے سیاسی مبصرین کے مطابق مشتبہ ہوگئی ہے۔ پہلے روز سے ہی اسے پی ڈی ایم کی کمزور لڑی سمجھا جارہا تھا۔ لیکن اس کے باوجود پی ڈی ایم اور ن لیگ کو ان سے قوی امیدیں تھیں۔ 

یہ صورت حال عمران خان حکومت کے لیے خاصی خوش آئند ہے کیوں کہ زرداری سسٹم میں اپنی جگہ برقرار رکھنا چاہتے ہیں، جس کا سب سے زیادہ فائدہ عمران خان کو ہوگا۔ چاہے زرداری نے ڈیل کی ہو یا نہیں وہ کبھی بھی نوازشریف اور مولانا فضل الرحمان کی خواہش پر عمل نہیں کرتے اور استعفیٰ دے کر نئے انتخابات کی راہ ہموار کرتے۔ 

وہ جانتے ہیں کہ اگر دوبارہ انتخابات ہوئے تو ن لیگ کے پنجاب اور مرکز میں حکومت بنانے کے امکانات پیدا ہوجائیں گے۔ جب کہ پیپلزپارٹی کو اس سے زیادہ کچھ نہیں ملے گا جو ان کے پاس ابھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ زرداری اسٹیبلشمنٹ سے تصادم بھی نہیں چاہتے۔ 

وہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ان کے ڈومیسائل نے انہیں پنجاب کے نوازشریف سے مختلف بنایا ہے۔ ان کی سندھ میں حکومت ہے، جب کہ نوازشریف کی کہیں بھی حکومت نہیں ہے۔ زرداری کا ماننا ہے کہ وہ اپنے اور اپنی جماعت کے لیے لیے زیادہ فوائد موجودہ نظام میں رہ کر ہی حاصل کرسکتے ہیں جبکہ نوازشریف اگر زرداری کے مشورے پر عمل کرتے ہیں تو انہیں کچھ نہیں ملے گا۔ 

زرداری کے برخلاف نوازشریف موجودہ حکومت ختم کرنا چاہتے ہیں چاہے کچھ بھی ہوجائے جبکہ وہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی کوئی موقع دینا نہیں چاہتے۔ نوازشریف کی سخت تنقید بھی اسی ضمن میں جاری ہے۔ 

ن لیگ کے اعلیٰ قیادت کو بھی نہیں معلوم کے اس محاذآرائی کا انجام کیا ہوگا جبکہ زرداری کے لیے ایسی صورت حال میں خاموش تماشائی بنے رہنا مشکل ہے کیوں کہ پی ڈی ایم میں خاموش تماشائی بنے رہنے کا مطلب نوازشریف کے نظریئے کی توثیق کرنا ہے، جو زرداری نہیں کرسکتے۔

اس لیے زرداری نے اپنے الگ راستے کا انتخاب کرکے پی ڈی ایم کو حیرت زدہ کردیا ہے۔

تازہ ترین