کراچی ( ٹی وی رپورٹ) جیو نیوز کے پروگرام ”جرگہ“کے آغاز میں میزبان سلیم صافی نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک سے بڑا بدبخت ملک کوئی اور نہیں ہوسکتا جس کے اصل مسائل کچھ اور ہوں ۔ لیکن اس کے اہل سیاست اور اہل صحافت ڈسکس کچھ اور کررہے ہوں۔
اس وقت پاکستان کا اصل مسائل میں تباہ ہوتی معیشت اور کورونا کے مسائل ہیں ۔سینئر رہنما ن لیگ اور سابق وزیراعظم پاکستان ، شاہد خاقان عباسی نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی ڈی ایم میں تنہا بھی رہ جائیں تب بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے ، پی ڈی ایم اتحاد میں کسی کو زبردستی نہیں لایاگیا۔پی ڈی ایم میں فاتحہ کی گنجائش نہیں ہے ۔
پی ڈی ایم نہ مفاد کی جنگ ہے نہ اقتدارکی جنگ ہے یہ تو نظام کی تبدیلی کی جنگ ہے۔یہ ایسا بیانیہ ہے جو میں سمجھتا ہوں کہ تبدیل نہیں ہوسکتا۔جب تک یہ اپنے مقصد کو نہیں پہنچے گا یہ بیانیہ بدلے گا نہیں۔
یہ بدقسمتی ہے کہ جو پی ڈی ایم کا مقصد تھاجس پر آج بھی سارے قائم ہیں کہ ملک کے معاملات کو ملک کے نظام کو آئین کے مطابق چلایا جائے ا س سے توجہ ہٹ گئی ہے۔ پی ڈی ایم میں ایک جماعت بھی رہ جائے مسلم لیگ ن وہاں تنہا رہ جائے ہم اس معاملے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
اس وقت اپوزیشن لیڈر والا جو معاملہ آیا ہے یہاں پر بھی ایک عجیب سا واقعہ ہوا ہے ۔ بہرحال ہماری ملکی تاریخ عجیب و غریب واقعات سے بھری ہوئی ہے اس میں مزید ایک اضافہ ہوگیا۔آج سینیٹ کا چیئرمین بھی متنازع ہے اور اپوزیشن لیڈر بھی متنازع ہے۔
اگر کوئی جماعت اتحاد کے فیصلے سے انحراف کرے تو پھر اس کا اتحاد میں رہنا مشکل ہوجاتا ہے۔لیڈر آف اپوزیشن پر اتفاق رائے سے فیصلہ ہوگیا تھا مگر بدقسمتی ہے کہ پیپلز پارٹی نے کہا کہ ہمارا آدمی بننا چاہئے ۔ سینیٹ میں لیڈر آف اپوزیشن اتنی اہم کرسی نہیں ہے ۔
اگر اس معاملے کو پی ڈی ایم میں واپس لے آتے تو یہ معاملہ طے ہوجاتا۔ حکومتی بینچوں کے لوگوں کو جمع کرکے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر چنا گیا۔پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کی بانی جماعت نہیں ہے۔اگر پی ڈی ایم کی تحریک کا انحصار ایک جماعت پر ہے تو پھر ہم نواز شریف سے کہتے ہیں کہ علاج نہ کروائیں واپس آجائیں۔
ہم نے کوئی ڈیل نہیں کی جو بیماری تھی وہ سب کے سامنے ہے ۔ حکومتی اسپتالوں میں بھی ٹیسٹ ہوئے سب کے سامنے ہوئے۔ ماہرین تین ہفتے لگے رہے جو وہاں رپورٹ گئے ہیں وہ بھی آپ کے سامنے ہیں ۔ہم یہاں کی رپورٹس پر اعتبار نہیں کرتے مگر وہاں کے ڈاکٹرز کیا کہہ رہے ہیں۔
آج میاں نواز شریف کی کامیابی ہے کہ حکومت بھی کہتی ہے کہ ان کے بغیر سیاست نہیں چلے گی۔اپوزیشن بھی یہی کہہ رہی ہے آج ملکی سیاست کا پورا محور میاں نواز شریف ہیں۔ان کے تین آپریشنز کورونا کی وجہ سے ملتوی ہوئے ہیں وہ اپنا علاج مکمل کروا کر واپس آجائیں گے۔
ان کی جماعت اور ان کا خاندان یہاں پر موجود ہیں۔ ادارے کا حکم سر آنکھوں پر ہے دو نوٹس آئے ہیں جن کی نہ قانونی حیثیت ہے نہ اخلاقی حیثیت ہے اس کے باوجود ہم نے کہا کہ ہم آئیں گے۔مگر مسئلہ یہ ہے کہ جب آپ ایک سیاسی رہنما کو بلاتے ہیں تو عوام رد عمل دیتے ہیں ۔
پارٹی رد عمل دیتی ہے یہاں پر صرف پارٹی نے ہی نہیں پوری پی ڈی ایم نے رد عمل دیا۔نیب کو اپنی نیت اور اپنی چوری کا پتہ ہے۔نیب نے حکومتوں کو توڑااپوزیشن کے خلاف استعمال ہوتی ہے۔آج حکومت میں کرپشن نہیں ہے پاکستان کی کرپٹ ترین حکومت آج اقتدار میں ہے۔
کرپشن نظر نہیں آتی یہ چینی کے پیسے کیوں بڑھے گندم کہاں جارہی ہے یہ دوائیوں کے اسکینڈل کیا ہیں۔دنیا میں کوئی ملک نہیں ہے جو کووڈ ویکسین بیچتا ہولیکن صرف ایک ملک پاکستان ہے جس نے باضابطہ اجازت دی ہے۔کیا حکومت پاکستان ویکسین نہیں خرید سکتی تھی ۔
اگر ہمارے قومی اداروں کی سوچ اتنی غلط اور محدود ہے تومعاملات کو کیسے حل کریں گے۔حکومت ایک قومی پالیسی بناتی تو سب عمل کرتے ۔ ایک نقطے سے آغاز کردیتے کہ جو باہر جائے گا ماسک پہن کر جائے گا۔
ملک کے پاس ویکسین خریدنے کے لئے50 ارب روپیہ نہیں ہے آپ نے لوگوں میں کتنے پیسے بانٹے ہیں ۔ وزیراعظم کو کورونا ہوا ہے تو اس کی تیکنیکی وجوہات ہیں ان کو سامنے رکھنا چاہئے ۔لوگ تو یہ مذاق اڑا رہے ہیں کہ ویکسین لگوائی تو کورونا ہوگیا۔
آج آپ بند کمروں میں رات کے اندھیروں میں کشمیر کا مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں یہ ملک کی بدقسمتی ہے۔ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں یہ عوام کو بتائیں ۔ کیا آج ہم سلامتی کونسل کی1948ء کی قرارداد سے ہٹ گئے ہیں۔اگر ہٹ گئے ہیں تو پارلیمان کو ، پاکستان کی عوام کو اعتماد میں لیں۔